ایک پھول کی کلی ہے ،وہ ہر وقت پھولوں سے لگی رہتی ہے ،کھبی تو بس گہری سوچ میں انہیں تکتی رہتی ہے اور پھر تکتی ہی رہ جاتی ہے،اور کھبی خوشبو لے لے کر سکون پاتی رہتی ہے اور کھبی نرم نرم ہاتھوں سے پھولوں کی نرمی محسوس کرتی رہتی ہے اور بے اختیار اس کا دل کہہ جاتا ہے
"سبحان اللہ بقدرتہ ”
اور ایک اور مزے کی بات پھر ان پیارے پیارے پھولوں کو دیکھ کر ایک دم خیال اللہ کے کچھ خوبصورت ،مقرب بندوں کی طرف چلا جاتا ہے
(ہمممم !!!سوچ رہی ہوں بتا دوں وہ کون ہیں چلیں بتا دیتی ہوں میرے استاد، میرے والدین ،میرے شیخ اور نیک ساتھی ہیں اور میری اکثر پوسٹ انہیں کے لیے ہوتی)
اور پھر اس واقعہ کی طرف ذہن جاتا ہے جو خوبصورت مکالمہ اللہ اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان ہوا تھا اور وہ واقعہ جب عاجزہ ایف ایس سی کے بعد جامعہ گئی تھی اور اسے کالج کے ماحول کے بعد مدرسہ کے پاکیزہ ماحول میں سیٹ ہونا مشکل لگتا تھا اور ظاہر ہے پاکیزہ ماحول اور گندہ ضمیر دل لگتا بھی کیسے ۔۔!!
خیر اس وقت میرا دل لگانے میں جہاں کچھ کردار سا تھیوں کا
تھا ،کچھ جامعہ میں لگی فریم
"” احساس کر اللہ تجھے پیار سےدیکھ رہا ہے””
کا تھا اور کچھ کردار با اخلاق ، با کمال ،با کردار ،صاحب بصیرت اساتذہ اکرام کا تھااور ادارے کی پرنسیپل ان کے لیے تو میرے پاس الفاظ نہیں جنہوں نےہمیشہ ،ہر وقت بڑی خندہ پیشانی سے مجھے گائیڈ کیا ،حتی کہ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلایا ۔۔۔ میں یہ پاکیزہ تعلیمی سفر فقط اللہ سویٹ کے کرم ، امی جی کے شوق، ابو جی کی انتھک محنت ، حضرت جی کی دعاؤں اور اساتذہ کی لگن و توجہ سے کر پائی ،اللہ آپ سب کو دارین میں بھلائیاں عطا فرمائیں آمین
خیر میں واقعہ کی سند بیان کر رہی تھی تو وہ ایک میری معلمہ جنہوں نے عالیہ ثانی میں مشکوۃ شریف پڑھائی محترمہ استانی صاحبہ ام پاکیزہ نے سنایا تھا اور اس کا ایسا اثر بھی میری ذات پر ہوا تھا کہ میں نے جامعہ پڑھنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا
انہوں نے بتایا تھا "” اللہ یہ ماحول ہر ایک کو نہیں دیا کرتے اللہ اس پاکیزہ پڑھائی کے لیے ہر ایک کو نہیں چنا کرتے بات وہی ہے” ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سویٹ سے پوچھا تھا
اللہ! سارے بندے نیک نہیں ہوتے آپ اس کام کے لیے کسی کسی کو کیوں چنتے ہیں ؟
تو اللہ رب العزت نے فرمایا:
موسی فلاں باغ سے میرے لیے پھولوں کا گلدستہ لاؤ
جب موسی علیہ السلام گئے تو باغ میں پھول تو بہت زیادہ تھے اللہ پاک جانتے بھی تھے لیکن موسی علیہ السلام چند ہی پھولوں کو اتار کر ان کا گلدستہ بنا کر لے گئے
اللہ سویٹ نے دریافت فرمایا : موسیٰ پھول تو اور بھی تھے آپ یہی کیوں لائے
موسی علیہ السلام نے فرمایا:اللہ یہ پھول مجھے زیادہ اچھے لگے تھے اس لیے پہی لایا
تو اللہ سویٹ نے فرمایا: موسی میں بھی اسی کو دین کے لیے چنتا ہوں اسے اس کام کے لیے منتخب کرتا ہوں جو مجھے پسند آئے”””
اللہ اکبر۔۔اللہ تیری شان واہ واہ
اور میری معلمہ جنہوں نے مجھے ہدایہ شریف پڑھائی محترمہ استانی صاحبہ ام محمد اکثر فرمایا کرتی تھیں” اللہ رب العزت ستر بار محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو دین کے لیے کسی کو چنتے ہیں”
تو پھر میں نے بھی کہا کہ وردہ ذرا سوچو تو سہی کس کی محبت کی نظر تم پر پڑی؟ ایک تو محبت کی نظر جو تمہیں ویسے بھی اچھی لگتی دوسرا محبت کی نظر بھی کس کی ۔۔؟ اللہ کی ؟ اللہ سویٹ کی بس اب تو تم پڑھو گی
پھر الحمدللہ آج وہ وقت ہے اللہ نے وہ لقب عطا فرمایا کہ جس کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف جاتی ہے اس کے محبوبﷺ کی طرف جاتی ہے
اللہ ﷻان نسبتوں کی لاج رکھنے کی توفیق فرمائے اللہ قبول فر ما لیں اللہ سویٹ دارین میں بھلائیاں عطا فرمائیں حقیقی معنوں میں والدین، استاد اور شیوخ کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں اور رب اندرونی و بیرونی ملک میں احسن طریقے سے دین کا کام لیں رب اتنا قابل بنائے کہ دین سے نفرت کرنے والے دیکھ کر محبت کرنے لگ جائیں, اللهﷻ سنت مصطفیٰﷺ کا شیدائی بنا دیں اور آخرت میں آپﷺ کے ہاتھوں حوض کوثر سے پانی پینا نصیب ہو آمین ثم آمین
والسلام
بنت قاضی سخاؤالدین