اسلام آباد: سیکرٹری نجکاری کمیشن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کی پہلی بولی مسترد ہونے اور بولی دہندگان کی جانب سے کیے گئے مطالبات سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔

قائمہ کمیٹی نجکاری کے اجلاس میں کمیٹی کے رکن خواجہ شیراز محمود نے سخت سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کے عمل میں ایک ہی بولی دہندہ کیوں رہ جاتا ہے؟ کیا حکومت نجکاری کے معاملے میں سنجیدہ ہے یا صرف نمائشی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ خواجہ شیراز محمود نے یہ بھی کہا کہ قومی ائیر لائن کی نجکاری میں جگ ہنسائی کے بعد اب ایچ بی ایف سی (ہاؤسنگ اینڈ بلڈنگ فنانس کمپنی) کے لیے بھی ایک ہی بولی دہندہ رہ گیا ہے۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ایچ بی ایف سی کی نجکاری کے لیے سخت شرائط رکھی گئی تھیں۔ آخرکار دو بولی دہندگان باقی رہ گئے تھے، لیکن ایک بولی دہندہ اسٹیٹ بینک کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے وہ بولی دینے سے دستبردار ہو گیا۔

رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے قومی ائیر لائن کی نجکاری پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں سوال کیا اور پوچھا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ نجکاری کمیشن کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اس پر خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ نجکاری کے طریقہ کار میں کچھ خامیاں تھیں جن کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات پیش آئیں۔فاروق ستار نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "ہمیں یوسف بننے میں وقت لگے گا، تب ہی مول لگے گا۔” ان کا کہنا تھا کہ قومی ائیر لائن کی نجکاری میں کتنے اخراجات ہوئے، اس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فی الحال وہ نجکاری کے اخراجات کا تفصیل سے حساب نہیں دے سکتے، تاہم بعد میں تمام معلومات فراہم کر دی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ قومی ائیر لائن کی بولی 31 اکتوبر 2024 کو ہوئی تھی۔فاروق ستار نے پوچھا کہ دوسری پارٹیاں بولی میں کیوں شریک نہیں ہوئیں؟ خواجہ شیراز محمود نے اس پر کہا کہ نجکاری کمیشن نے باقی تمام پارٹیوں کو بولی میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن کچھ شرائط کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ سکے۔سیکرٹری نجکاری کمیشن نے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ بولی میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کو مکمل بریفنگ دی گئی تھی۔ آخری اجلاس میں 11 نکات پر بات ہوئی تھی جن میں سے صرف 2 نکات رہ گئے تھے۔ ان نکات میں سے ایک پارٹی نے مینجمنٹ کنٹرول کا مطالبہ کیا، دوسری پارٹی نے تمام ملازمین کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا، اور تیسری پارٹی نے عالمی مسابقت کے لیے نئے طیاروں پر جی ایس ٹی میں رعایت کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ بولی دہندگان نے قومی ائیر لائن کے 191 ارب روپے کے واجبات کو 141 ارب روپے کے اثاثوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی درخواست کی۔ تاہم حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ریلیف دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ان دو شرائط کو ہٹا دیا گیا۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ یورپ نے پی آئی اے پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں اور حکومت نے دوبارہ اظہار دلچسپی کا نوٹس جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اب نجکاری کے عمل کو تیز تر طریقے سے دوبارہ شروع کیا جائے گا اور حکومت سرمایہ کاروں کے ساتھ نجکاری کے معاملے پر بات چیت کر رہی ہے۔

اس تمام صورتحال کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت قومی ائیر لائن کی نجکاری کے عمل میں نئے اقدامات کر رہی ہے اور اس کے لیے سرمایہ کاروں کو قائل کرنے کی کوشش جاری ہے، تاہم اس عمل میں درپیش چیلنجز اور شرائط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Shares: