مزید دیکھیں

مقبول

پی آئی اے کا 2010 سے 2020 تک آڈٹ نہ ہونے کا انکشاف

قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی قومی ائیرلائن پی آئی اے کا 2010 سے 2020 تک آڈٹ ہی نہیں ہوا،کمیٹی نے دس سال آڈٹ نہ کرانے کا تفصیلی جواب طلب کرلیا۔ رمیش لال نے قائمہ کمیٹی اجلاس میں کہا کہ سابق وفاقی وزیرسرورخان نے ادارے کا بیڑہ غرق کیا، دنیا میں بدنام کیا

نوابزادہ افتخاراحمد بابرکی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس ہوا۔ منزہ حسن نے پی آئی اے کے بحرین اوربرمنگھم میں دوافسران پر الزامات کا معاملہ اٹھایا،سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ کہ اویس کنٹری مینیجر کوواپس بلا لیا ہے، رکن کمیٹی ڈاکٹردرشن نے پی آئی اے کے بندروٹس کھولنے سے متعلق سوال کیا تو سیکرٹری ایوی ایشن نےکہاکہ ایاسا ریگولیٹری رجیم سے مطمئن ہیں پابندی اگلے چند مہینوں میں اٹھ جائے گی۔

قائمہ کمیٹی اجلاس میں پی آئی اے کا دس سال آڈٹ نہ ہونے کا انکشاف ہوا، تو مہرین رزاق بھٹونےکہا کہ دس سال آڈٹ نہیں ہوا، کون ذمہ دارہے؟ رمیش لال نےکہا کہ دس سال آڈٹ کیوں نہیں ہوا وجہ کیا تھی؟ سیکرٹری ایوی ایشن نے قائمہ کمیٹی اجلاس میں دس سال آڈٹ نہ ہونے کی تصدیق کی اور کہاکہ پی ٹی آئی کا گزشتہ چارسال میں دو بار آڈٹ کرایا ہے، رکن کمیٹی منزہ حسن نےپوچھاکہ ان دس سالوں میں پی آئی اے کا کوئی جہاز کریش نہیں ہوا؟ سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ چارحادثات ہوئے کمیٹی نے دس سال آڈٹ نہ کرانے کے معاملے کا تفصیلی جواب طلب کرلیا

سی ای اونے بتایا کہ پی آئی اے کے پاس 10جہاز320 اوردو اے ٹی آرز ہیں، کورونا کے وقت بارہ 777 جہازتھے، اب پانچ جہازفعال ہیں حج سے پہلے سات 777 جہاز فعال ہو جائیں گے ،رکن کمیٹی رمیش لال نے کہاکہ سابق وزیر سرور خان نے پی آئی اے کا بیڑہ غرق کیا، دنیا میں بدنام کیاجب تک ادارے میں کالی بھیڑیں بیٹھی ہیں، پی آئی اے ترقی نہیں کرسکتا،چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ 2022 میں قومی اسمبلی نے اسلام آباد ایئرپورٹ کا نام شہید بے نظیربھٹوکے نام پررکھنے کی قرارداد مںظور کی تھی سیکرٹری ایوی ایشن نے کہاکہ نام کابینہ ڈویژن کے ذریعے تبدیل ہوتا ہے، مہرین رزاق بھٹو نے وزیراعظم کو خط لکھنا کی تجویز دی۔

پی آئی اے کی نجکاری،سوا کھرب روپے سے زائد کی پیشکش آ گئی

چندہ ڈالیں گے لیکن پی آئی اے خریدیں گے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

بشریٰ کا رونا اچھی حکمت عملی،گنڈا پور”نمونہ” پی آئی اے نہیں خرید رہے،عظمیٰ بخاری

پی آئی اے کی بجائے اپنے فلیٹس بیچیں، شیخ رشید

اسلام آباد ایئر پورٹ نواز شریف کے قریبی دوست کو دیا جا رہا، مبشر لقمان

پی آئی اے نجکاری،صرف 10 ارب کی بولی، کیوں؟سعد نذیر کا کھرا سچ میں جواب

پی آئی اے نجکاری،خیبر پختونخوا حکومت کی بولی کا حصہ بننے کی خواہش

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا آڈٹ نہ ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے جو ادارے کی مالی شفافیت اور کارکردگی کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ 2010 سے 2020 تک کے عرصے میں پی آئی اے کو کافی مشکلات کا سامنا رہا، اور اس دوران قومی ایئرلائن کے حکام نے متعدد مالیاتی بحرانوں، بدانتظامیوں اور بے ضابطگیوں کا سامنا کیا۔ اگرچہ پی آئی اے کا آڈٹ نہ ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ادارے کی مالی صحت اور اخراجات کی نگرانی نہیں کی گئی، لیکن اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے ادارے کی مالی بدعنوانیوں کا پردہ بھی اٹھا سکتا ہے جو عوام سے چھپی رہی ہیں۔آڈٹ نہ ہونے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے پی آئی اے کی مالی صورتحال کا جائزہ لیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کتنی رقم غیر ضروری طور پر ضائع ہوئی اور کہاں کہاں بدعنوانی یا غفلت ہوئی۔ آڈٹ ایک اہم عمل ہے جس کے ذریعے نہ صرف مالی بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں بلکہ اس سے ادارے کی مجموعی کارکردگی میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔

پی آئی اے کی بہتر کارکردگی اور مالی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے آڈٹس کو وقت پر مکمل کیا جائے، تاکہ عوامی پیسہ ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور اس ادارے کی غیر معمولی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے معاملات کو بہتر بنایا جا سکے۔یہ واقعہ حکومت اور متعلقہ حکام کے لیے ایک سنجیدہ انتباہ ہے کہ وہ پی آئی اے جیسے اہم قومی ادارے کی مالی نگرانی کو مضبوط کریں، تاکہ عوام کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے اور اس ادارے کی بحالی کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔

ممتاز حیدر
ممتاز حیدرhttp://www.baaghitv.com
ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں Follow @MumtaazAwan