اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے طویل انتظار کے بعد صرف ایک بولی موصول ہوئی، جس سے حکومت کو ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلیو ورلڈ سٹی، جو کہ ایک ریئل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کمپنی ہے، نے پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز کے لیے 10 ارب روپے کی بولی دی، جو کہ حکومت کی جانب سے طے کردہ ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے سے بہت کم ہے۔
تقریب کا آغاز اور بلیو ورلڈ سٹی کی بولی
اسلام آباد کی ایک نجی وکیل میں تقریب منعقد کی گئی، جہاں پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والی چھ کمپنیوں میں سے صرف بلیو ورلڈ سٹی نے ہی بولی لگائی۔ اس موقع پر بولی کے عمل کے حوالے سے وضاحت کی گئی کہ پہلے 14 اگست کو بولی کے عمل میں توسیع کی گئی، پھر دیگر میٹرز کو شامل کرنے کے لیے مزید وقت دیا گیا، لیکن آخر کار صرف ایک ہی بولی موصول ہوئی۔حکومت نے بلیو ورلڈ سٹی کو 10 ارب روپے کی بولی بڑھانے کے لیے 30 منٹ کا وقت دیا، لیکن کمپنی نے اپنی بولی میں اضافہ کرنے سے انکار کر دیا۔ سعد نذیر، چیئرمین بلیو ورلڈ سٹی، نے واضح کیا کہ 85 ارب روپے میں تو نئی ایئرلائن کھڑی کی جا سکتی ہے، اور اگر پی آئی اے کو اس قیمت پر نہیں بیچا جا سکتا تو وہ اسے خود ہی چلائیں۔یہ صورتحال حکومتی حکمت عملی پر سوال اٹھاتی ہے، کیونکہ صرف ایک بولی موصول ہونے نے پورے نجکاری کے عمل کو ناقص قرار دیا۔ اب یہ معاملہ نجکاری کمیشن کے پاس جائے گا، جہاں فیصلہ کیا جائے گا کہ بلیو ورلڈ سٹی کی بولی قبول کی جائے یا اس عمل کو منسوخ کیا جائے۔
نجکاری کے وعدے اور حقائق
حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے بڑے دعوے کیے تھے، لیکن عملی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پی آئی اے میں حصص کے لیے 6 گروپس کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، لیکن ان میں سے صرف بلیو ورلڈ سٹی نے ہی بولی دی۔ اس ناکامی نے حکومت کے وعدوں کی حقیقت کو اجاگر کیا ہے اور عوامی توقعات پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔دوران تقریب، سرکاری ٹی وی نے براہ راست بولی کے عمل کی کوریج کی، جبکہ نجی میڈیا کو کوریج سے منع کیا گیا۔ یہ صورتحال معلومات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔ عوام اور میڈیا کی جانب سے مکمل معلومات فراہم نہ کرنے کے باعث حکومتی عمل پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔
اب حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پی آئی اے کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سخت فیصلے کرے۔ اگر بلیو ورلڈ سٹی کی بولی قبول نہیں کی جاتی تو پی آئی اے کی حالت میں بہتری کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ اس تمام صورتحال نے نہ صرف قومی ایئر لائن کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے بلکہ ملک کی معیشت کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج پیش کیا ہے۔ اگر حکومت نے اس چیلنج کا درست انداز میں سامنا نہ کیا تو یہ ایک اور ناکام نجکاری کی کہانی بن جائے گی۔