حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ (پی آئی اے) کی نجکاری کا فیصلہ کن مرحلہ مکمل کرنے کی تیاری کر لی ہے۔
نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولیاں 23 دسمبر (منگل) کو طلب کی جائیں گی، جبکہ اس عمل کو شفاف بنانے کے لیے بولی کھولنے کی تقریب براہِ راست ٹیلی وژن پر نشر کی جائے گی۔
نجکاری کمیشن کی جانب سے جاری پروگرام کے مطابق بولیاں صبح 10:45 سے 11:15 بجے تک جمع کی جائیں گی جبکہ انہیں سہ پہر 3:30 بجے کھولا جائے گا اس مرحلے پر 3 بولی دہندگان مقابلے میں شامل ہیں پہلے کنسورشیم میں لکی سیمنٹ، حب پاور ہولڈنگز، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز شامل ہیں۔
https://x.com/AajKamranKhan/status/2003002414220341506?s=20
دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب کارپوریشن، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی اسکولز اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں، جبکہ تیسری بولی ایئر بلیو پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے دی جائے گی۔
نجکاری کمیشن کے چیئرمین اور وزیراعظم کے مشیر محمد علی کے مطابق فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے بولی کے عمل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ بولیاں جمع ہونے کے بعد کمیشن کا بورڈ ریفرنس قیمت مقرر کرے گا، جس کی منظوری کابینہ کمیٹی برائے نجکاری دے گی۔
معاہدے کے تحت پی آئی اے کے 75 فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے، جن میں سے 92.5 فیصد رقم پی آئی اے کو جبکہ 7.5 فیصد قومی خزانے کو ملے گی،حکومت کے پاس 25 فیصد حصص برقرار رہیں گے، جنہیں کامیاب بولی دہندہ بعد میں خریدنے یا حکومت کے پاس چھوڑنے کا اختیار رکھے گا پی آئی اے کی بحالی سے معیشت اور جی ڈی پی پر مثبت اثر پڑے گا انہوں نے کہا کہ بہتر انتظام، سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی شمولیت سے پی آئی اے دوبارہ اپنے عروج کی طرف لوٹ سکتی ہے۔
محمد علی کے مطابق باقی 25 فیصد حصص کی قدر کا تعین 75 فیصد حصص کے فیصلے کے بعد کیا جائے گا حکومت نے بولی دہندگان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ 12 ماہ کے اندر 12 فیصد پریمیم کے ساتھ باقی حصص خریدنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں،بولی دہندگان کو 75 فیصد حصص کے حوالے سے فیصلہ منگل کو کرنا ہوگا، جبکہ باقی 25 فیصد حصص کی خریداری کے لیے 90 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بولی دہندگان نے 75 فیصد حصص کی ادائیگی ایک سال میں کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم حکومت نے یہ تجویز قبول نہیں کی ان کے مطابق اگر ایک سال کے دوران پی آئی اے کی کارکردگی خراب ہوتی تو خریدار خریداری سے پیچھے ہٹ سکتا تھا، اور اگر کارکردگی بہتر ہوتی تو خریداری کے حق میں فیصلہ کرتا، جو حکومت کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ کامیاب بولی دہندہ 90 دن کے اندر بولی کی رقم کا دو تہائی جمع کرائے گا، جبکہ باقی ایک تہائی ایک سال کے اندر ادا کی جائے گی پی آئی اے کی بحالی سے مجموعی قومی پیداوار اور مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گاپاکستان میں ہوا بازی کے شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ سب سے کم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ حصہ 18 فیصد اور سعودی عرب میں 8.5 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں یہ صرف 1.3 فیصد ہے۔ تاہم پی آئی اے کی صلاحیت کے باعث یہ شرح نمایاں طور پر بڑھ سکتی ہے۔
پی آئی اے کے 34 طیاروں کے بیڑے میں سے اس وقت صرف 18 طیارے فعال ہیں تاہم پی آئی اے کے 97 ممالک کے ساتھ فضائی سروس معاہدے موجود ہیں اور 170 سے زائد ممالک میں لینڈنگ رائٹس حاصل ہیں،پی آئی اے اس وقت 11 ارب روپے کا خالص منافع اور 30 ارب روپے کی ایکویٹی رکھتی ہے، جبکہ 26 ارب روپے کی واجبات پی آئی اے کے پاس ہی رہیں گی، جن کی ادائیگی بولی دہندگان پانچ سال میں کریں گے۔
ملازمین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجوزہ معاہدے کے تحت ایک سال تک کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جا سکے گا۔ ملازمین کی پنشن اور مراعات مکمل طور پر محفوظ رہیں گی، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، طبی سہولتیں اور رعایتی ٹکٹوں کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی اٹھائے گی 2011 میں پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 11 ہزار 500 تھی، جو اب کم ہو کر 6 ہزار 500 رہ گئی ہے، یعنی پانچ سال میں 5 ہزار ملازمین کی کمی آئی ہے۔
محمد علی نے کہا کہ پی آئی اے ایک ایسا اثاثہ ہے جسے اگر درست انداز میں نہ چلایا گیا تو بھاری نقصان ہو سکتا ہے، لیکن بہتر انتظام کے ساتھ یہ غیر معمولی آمدن پیدا کر سکتی ہے 25 کروڑ آبادی والے ملک میں پی آئی اے کے پاس مسافر، منزلیں، روٹس اور لینڈنگ سلاٹس موجود ہیں۔
ان کے مطابق پی آئی اے کو سرمایہ کاری، نئے طیاروں کے اضافے اور مؤثر انتظام کی ضرورت ہے، جو حکومت فراہم نہیں کر سکتی، پی آئی اے میں جس نوعیت کے فیصلوں کی ضرورت ہے وہ صرف نجی شعبہ ہی کر سکتا ہے، اور اگر ایئرلائن کو درست طور پر چلایا جائے تو پی آئی اے دوبارہ اپنے سنہری دور میں واپس آ سکتی ہے۔
سینئیر صحافی کامران خان کا کہنا ہے کہ تمام کارپوریٹ کی نظریں پی آئی اے کی نجکاری پر، جو کہ کل عمل میں لائی جائے گی،پردے کے پیچھے ڈرامہ سامنے آیا ہے۔ حیرت انگیز پیشرفت میں، طیبہ گروپ نے گزشتہ ہفتے پی ایم کی زیرقیادت میٹنگ میں عارف حبیب گروپ کی طرف سے پیش کی گئی مشترکہ منصوبہ بندی کی تجویز کو صاف طور پر مسترد کر دیا – ایک ایسا معاہدہ جس میں 40% عارف حبیب، 40% ٹبہ، 20% فوجی فاؤنڈیشن، محمد علی طیبہ بطور چیئرمین PIA (پرائیویٹ) کے ساتھ تقسیم ہو جائے گی۔
پھر بھی، بیک روم سمجھوتہ کے بجائے، طیبہ گروپ نے کھلی جنگ کا انتخاب کیا، اور اعلان کیا کہ یہ براہ راست http://bidding میں جائے گا، کوئی بند ڈیل نہیں، کوئی محفوظ انتظام نہیںاب یہ دو حریف کنسورشیموں میں بند پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری گروپوں کے درمیان ایک شدید، بلند و بالا آمنے سامنے ہونے کو ہے، یہ صرف نجکاری نہیں ہے؛ یہ شفافیت، اور اعصاب کا امتحان ہے۔








