سڈنی: بونڈی بیچ میں ہونے والے ہولناک دہشت گرد حملے کے بعد مغربی سڈنی کے ایک قبرستان میں نفرت انگیز اور اشتعال دلانے والا واقعہ پیش آیا ہے، جہاں نامعلوم افراد نے مسلم قبروں پر سور کے سر پھینک دیے۔
یہ واقعہ کیمڈن کے علاقے ناریلن قبرستان میں پیش آیا، جسے مقامی مسلم رہنماؤں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔معروف مسلم انڈرٹیکر احمد ہریچی نے اس واقعے کو “بے مقصد، نفرت سے بھرپور اور انسانیت سوز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسائل کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا جس نے بھی یہ حرکت کی ہے، اس نے نفرت کے سوا کچھ ثابت نہیں کیا۔ یہ محض حماقت ہے۔ اس سے غصہ، درد اور تقسیم ہی بڑھے گی۔ ہمیں بزدلانہ حرکتوں سے مزید اشتعال نہیں چاہیے۔ جن لوگوں کی قبریں ہیں، وہ حالیہ واقعات سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے اور ان کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں۔قبریں سکون، وقار اور احترام کی جگہ ہوتی ہیں تمام مذاہب اور پوری انسانیت کے لیے۔ اگر آپ امن چاہتے ہیں تو یہ طریقہ نہیں، اگر انصاف چاہتے ہیں تو بھی یہ راستہ نہیں۔ یہ عمل محض انسانیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب سڈنی کے مسلم رہنماؤں نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ بونڈی بیچ حملے میں ملوث مبینہ ملزمان، نوید اکرم (24) اور ان کے والد ساجد اکرم (50)، کی میتیں وصول کرنے یا ان کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کریں گے۔پولیس کے مطابق دونوں افراد نے ایک پیدل پل پر کھڑے ہو کر فوجی نوعیت کے ہتھیاروں سے مقامی افراد، سیاحوں اور خاندانوں پر فائرنگ کی۔ اس حملے میں اب تک 16 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں حملہ آور ساجد اکرم بھی شامل ہیں، جبکہ چار بچوں سمیت 42 افراد زخمی ہو کر اسپتال منتقل کیے گئے۔پولیس نے تصدیق کی ہے کہ 14 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوئے، جبکہ دو افراد رات گئے اسپتال میں دم توڑ گئے۔ جاں بحق افراد کی عمریں 10 سے 87 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہیں۔ نوید اکرم پولیس کی گولی لگنے کے بعد اسپتال میں زیر علاج ہیں اور پولیس کی سخت نگرانی میں ہیں۔
سڈنی کے ممتاز اسلامی رہنما ڈاکٹر جمال ریفی نے کہا کہ مسلم برادری ان حملہ آوروں کو اسلام کے دائرے میں شامل نہیں سمجھتی۔ان کا کہنا تھا،انہوں نے جو کیا، اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔ بے گناہ شہریوں کا قتل ہماری تعلیمات کے خلاف ہے۔ ہماری کتاب میں واضح ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے،ڈاکٹر ریفی نے 2014 کے لنڈٹ کیفے محاصرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی مسلم برادری نے یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔جب حملہ آور کی موت ہوئی تو ہم سے اس کی میت وصول کرنے کے بارے میں پوچھا گیا۔ ہم نے انکار کیا، آخری رسومات ادا نہیں کیں اور اسے روک وُڈ قبرستان کے کسی مسلم حصے میں دفنانے سے بھی انکار کیا۔ انہی اصولوں پر ہم اس معاملے میں بھی عمل کریں گے۔
نوید اکرم کے سابق اسلامی استاد، شیخ آدم اسماعیل جو المرد انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں نے بھی حملے کی شدید مذمت کی۔انہوں نے بتایا میرا ان سے آخری رابطہ 2022 کے اوائل میں ہوا تھا۔ ہمارے ادارے میں صرف قرآن پڑھایا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ بانڈی میں متاثرین کی تصاویر دیکھ کر میں شدید غمزدہ ہوں۔ انہیں اور ان کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، جس کے باعث انہیں گھر خالی کرنا پڑا اور پولیس کی مدد لینا پڑی، جس پر انہوں نے پولیس کا شکریہ ادا کیا۔








