کھاریاں راولپنڈی موٹروے کاٹھیکہ منسوخ کرنے سے 115ارب کا نقصان ہوسکتا

0
66
sukkur Motorway

اسلام آباد(محمداویس) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے کھاریاں راولپنڈی موٹروے کا ٹھیکہ منسوخ کرنے پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اگر دوبارہ ٹینڈرنگ میں منصوبے کی لاگت85ارب روپے سے بڑھ گئی تو تمام ذمہ داران کے خلاف کیس نیب کو بھیج دوں گا،اگرنجی کمپنی 85ارب روپے میں آج بھی بنانے کو تیار ہے تو کیوں ٹھیکہ منسوخ کرکے ملک کو 115ارب روپے کا نقصان پہنچایاجارہاہے ، این ایچ اے حکام نے بتایاکہ کھاریاں راولپنڈی موٹروے کامنصوبہ دوسرے نمبر پر آنے والی کمپنی کو اس لیے نہیں دیا جاسکتا کہ ان کی لاگت 120ارب روپے ہے دوبارہ ٹینڈرنگ کی وجہ سے منصوبے کی لاگت مہنگائی اور ڈالر کے فرق کی وجہ سے 200ارب تک جاسکتی ہے دوبارہ 85ارب کی بولی نہیں مل سکتی ہے ۔سیالکوٹ کھاریاں موٹروے منصوبے میں این ایچ اے کا کامیاب بولی دہندگان کے خلاف رویہ متعصبانہ تھا ،نجی کمپنی کیساتھ زیادتی ہوئی ہے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے،کمیٹی نے سفارش کی کہ چیئرمین این ایچ اے اور سیکرٹری مواصلات کو الگ الگ ہونا چاہیے یہاں دونوں عہدے ایک بندے کے پاس ہیں اس پر کمیٹی کو تشویش ہے اس لیے الگ بندہ لگایاجائے کیا جائے ۔این ایچ اے نے تمام ٹھیکہ ایک مخصوص کمپنی کودینے ہیں تودیں مگر قائمہ کمیٹی کوجواب دیں ۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی کی زیر صدارت پپس پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔اجلاس میں کچ تا ہرنائی اور ہرنائی تا سنجوی سڑک میں ناقص مواد کے استعمال کا ایجنڈا زیر غور آیا۔حکام این ایچ اے نے بتایاکہ اب تک اس شاہراہ پر ذیادہ تر پہاڑی علاقے کی کٹائی کی گئی ہے۔سپروائزر کنسلٹنٹ دی انجینئرایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں جو مہینے میں ایک مرتبہ سائٹ کا دورہ کرتے ہیں، کمپنی کے ساتھ کوئی بھی معاملہ ہوتو پہلے دی انجینئر کے پاس جاتاہے وہ معاملہ دیکھ کر حل کرتاہے یہ تجربہ کار آدمی ہوتاہے ان کی تنخواہ 4لاکھ روپے ہوتی ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کیا لازم ہے کہ سپروائزر کنسلٹنٹ ہمیشہ سویلین نہیں ہو گا ؟سینیٹر شمیم آفریدی نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ریٹائرڈ نہیں ہوتا، قابل ڈاکٹر اور انجینئر کیوں بھرتی نہیں کئے جاتے؟ یہ ریٹائرڈ ہوں گے تو نوجوانوں کو بھرتی کیاجاسکے گا۔این ایچ اے حکام نے کہاکہ منصوبے کے پی سی ون کی کل لاگت 8.37 ارب روپے ہے، منصوبے کے پہلے حصے پرکٹائی کا 60فیصد جبکہ دوسرے پر 9فیصد کام ہوا ،کنسلٹنٹ سپروائزری ٹیم میں کل 38 حکام کو ہائر کیا گیا، پہلے منصوبہ صرف ٹی ایس ٹی کاتھا بعد میں اسفالٹ کو بھی شامل کیاگیاجس سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا۔وزارت منصوبہ بندی نے کہاتھاکہ اس روٹ پر ٹریفک کم ہے اس لیے اسفالٹ کی ضرورت نہیں جبکہ یہاں پر کوئلے کے ٹرک چلتے ہیں بعد میں اس کوشامل کرلیاگیا۔منصوبے میں اسفالٹ شامل کرنے کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 5 ارب اضافے ہواہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ پہلے ہمیں بتایا گیاکہ منصوبے میں 2ارب روپے کا اضافہ ہواہے اب 5ارب ہوگیاہے ۔این ایچ اے حکام نے بتایاکہ ٹی ایس ٹی میٹیریل استعمال کرنے کی منظوری وزارت منصوبہ بندی نے دی، دوبارہ کمیٹی بنا کر ٹی ایس ٹی کی جگہ اسفالٹ میٹیریل استعمال کرنے کی منظوری دی گئی، مواد تبدیل ہونے کے باعث منصوبے کی لاگت میں 5 ارب کا اضافہ ہوا، این ایچ اے ٹی ایس ٹی میٹیریل کے استعمال کی مخالفت کی جبکہ اس منصوبے کا دوبارہ ٹینڈر ہوگا کیوں کہ پہلے ٹینڈر میں کنسلٹنٹ نے صحیح پیمائش نہیں کی تھی جس کی وجہ سے بہت زیادہ فرق آرہاتھااین ایچ اے حکام نے کہاکہ کنسلٹنٹ کی نا اہلی کے باعث منصوبہ کی تکمیل نا ممکن تھی،معاملے کی انکوائری کے بعد ڈیزائن کنسلٹنٹ کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی،جس کی وجہ سے منصوبہ ختم کردیا گیا اس دوران 11فیصد کام ہوا جس پر کمپنی کو 64 کروڑ کی ادائیگی کی گئی۔سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ 70 کروڑ روپے مفت میں ضائع کر دیے گئے، این ایچ اے حکام نے بتایاکہ جو کام پرانے ٹھیکہ دار نے کیا وہ اپنی جگہ موجود ہے،جو کام ہوا وہ ریاست کا اثاثہ ہے۔

سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ منصوبے کے ڈیزائن کنسلٹنٹ کے خلاف کارروائی کب تک عمل میں لائی جائے گی، حکام نے بتایاکہ کنسلٹنٹ کا معاملہ این ایچ اے ہیڈ کوارٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے، جنوری2023 میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے 3ماہ کام کرنے کے بعد کنسلٹنٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی ۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ اپریل کے بعد آج اکتوبر ہے اس کے خلاف کیاایکشن ہواہے وہ کمیٹی کوبتائیں جس کی وجہ سے نقصان ہواہے،یہ ملک اور قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے، سینیٹر دنیش کمار اجلاس کے دوران جذباتی ہو گئے میں ہاتھ جوڑتا ہوں، ملک و قوم کی بربادی نہ کریں، اس کنسلٹنٹ کو بلیک لسٹ کریں ۔کمیٹی نے سیکرٹری مواصلات کے نہ آنے پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ چیئرمین این ایچ اے اور سیکرٹری مواصلات کو الگ الگ افسران کو ہونا چاہیے یہاں دونوں عہدے ایک بندے کے پاس ہیں اس پر کمیٹی کو تشویش ہے اس کو الگ کیا جائے ۔

حکام نے سیالکوٹ کھاریاں موٹروے پر بریفنگ دی ۔سینیٹر عمر فاروق نے کہاکہ ایف ڈبلیو او کے لیے این ایچ اے ہر قانون کوتبدیل کیا جارہاہے پورا ملک ان کے حوالے کردیا گیا ہے پرائیوٹ کنٹریکٹر کے ٹینڈر لے کر ایف ڈبلیو او کو دیئے جارہے ہیں ۔ سینیٹر منظور کاکڑ نے کہاکہ ایف ڈبلیو او کچھ جگہ پر بغیر پیسے کے بھی کام کرتی ہے۔حکام این ایچ اے نے بتایاکہ پنجاب ایریگیشن نے چناب دریا پر برج بنانے سے منع کردیا گیا جس کی وجہ سے الاٹ منٹ تبدیل کردی گئی جس کی وجہ سے این ایچ اے زمین وقت پر کمپنی کو نہیں دے سکے ۔ہم نے مکمل زمین 6ماہ میں دینی تھی۔ میٹراکون کے مالک سینیٹر عبدالقادر نے ٹیکنو کمپنی کے نمائندے پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ ٹیکنو کو کیوں بلایا ہے میٹراکون سے کیا بات ہوئی ہے ہم اس منصوبے میں جوائنٹ ونچر تھے ٹیکنو کمیٹی میں آرہاہے کیا آپ نے میٹراکون کو بتایا ہے یہ جوائنٹ وینچر تھا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ٹیکنو کو اس لیے بلایا ہے کہ یہ 80فیصد حصہ دار ہیں۔نجی کمپنی ٹیکنو کے نمائندے نے بتایاکہ ہم نے کامیاب بولی دی تھی ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ سیالکوٹ کھاریاں موٹروے کا این ایچ اے نے ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو دینا تھا تو کمیٹی کو تو جواب دیں ۔نجی کمپنی ٹیکنو نے بتایاکہ ہمارے اور ایف ڈبلیو او کے بولی میں ایک ارب روپے کا فرق تھا،ہم نے6.949ملین روپے کو 8پر تقسیم نہیں کیا جس پر ہماری بولی مسترد کردی گئی بولی میں ایک ارب روپے کا فرق ہے ۔ہم قانونی چارہ جوئی نہیں کرتے ہیں اس وجہ سے یہ ٹھیکہ ہمیں نہیں دیاگیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس منصوبے میں لگتاہے کہ این ایچ اے بائسڈ (جانب دار)ہوا ہے اور ٹھیکہ کامیاب بولی دینے والے ٹیکنو اور میٹراکون کے جوائنٹ ونچر کو نہیں دیا گیا۔ اس میں کیس میں زیادتی ہوئی ہے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پنڈی کھاریاں موٹر وے منصوبے پر این ایچ اے حکام نے کمیٹی کوبریفنگ دی ۔این ایچ اے حکام نے بتایاکہ راولپنڈی کھاریاں 117 کلو میٹر طویل منصوبہ ہے، منصوبے کیلئے 3 کمپنیوں نے اظہار دلچسپی ظاہر کیا، 15 اگست 2022 کو پہلے نمبر پر آنی والی کمپنی کو کو لیٹر آف انٹینٹ دیا گیا، جس جوائنٹ ونچر کے تحت ایل او آئی دیا گیا، اس میں پاور چائنا کا 51 فیصد شیئر ہے، ایل او آئی دینے کے بعد پاور چائنا سے کہا گیا وہ اپنی رضامندی ظاہر کرے، پاور چائنا کی طرف سے پوزیشن واضح نہ ہونے کی وجہ سے ایل او آئی کینسل کردیا، اب این ایچ اے کی جانب اس منصوبے کا دوبارہ ٹینڈر کیا جائیگاکیوں کہ دوسرے نمبر پر آنے والی کمپنی کی لاگت 120ارب روپے ہے جس کی منظوری نہیں دی گئی کہ یہ رقم بہت زیادہ ہے ۔منصوبے کی ابتدائی لاگت 85 ارب روپے تھی۔دنیش کمار نے کہاکہ ایل او آئی دینے کے بعد اس رضامندی کا کیسے کہا جاسکتا ہے، یہ مرحلہ پہلے کیوں مکمل نہیں کیا گیا، سینیٹر دنیش کمار نے واک آؤٹ کی دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ این ایچ اے نے قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا گیا ہے، ایک سال 2 ماہ بعد منصوبے کی لاگت میں 200 ارب روپے بڑھ گئی، قوم کا 200 ارب روپہ ضائع ہوگیا، یہ نیب کا کیس بنتا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ڈالر ریٹ اور انٹرسٹ ریٹ بڑھنے سے نقصان زیادہ ہوگا، ٹیکنو کمپنی کے نمائندے نے کہاکہ مین کمپنی پاور چائنہ ابتدای لاگت85ارب روپے پر کام کرنے کیلئے تیار ہے، ہم یہ منصوبہ آج بھی کرنے کو تیار ہیں پاور چائنہ آج بھی ہمارے پر لیٹر ہے کہ وہ یہ منصوبہ بنانا چاہتی ہے این ایچ اے والے وہ سوال پوچھ رہے ہیں جیسے منگنی ہوئی نہ ہو اور پوچھا جارہاہوکہ شادی کے بعد کیاہوگا۔سینیٹر عبدالقادر اور میٹراکون کمپنی کے مالک نے کہاکہ یہ منصوبہ جوائنٹ ونچر ہے جس میں میٹرا کون بھی شامل ہے یہ ہمارے سات بات کئے بغیر کس طرح کمیٹی میں بات کرسکتے ہیں اس منصوبے میں پاور چائنا ہی بھاگ گئی ہے، ٹیکنوکمپنی کے نمائندے ہوا میں بات کررہے ہیں ۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ میں اور نہ میری کمیٹی کے ارکان یہ ذمہ داری لینے کوتیار ہیں کہ اگردوبارہ ٹینڈر میں لاگت85ارب روپے سے زائد ہوگئی تو کون ذمہ دار ہوگا یہ لاگت 200ارب تک جائے گئی انہوں نے این ایچ اے حکام کوہدایت کی کہ اگر دوبارہ ٹینڈر دیا گیا تو 85 ارب کی لاگت میں منصوبہ مکمل ہونا چاہیے، اگر 85 ارب میں ٹینڈر نہ دیا گیا تو کیس نیب کو بھجوا دیں گے جس کے بعد کمیٹی ملتوی کردی گئی۔(محمداویس)

Leave a reply