پیاس کے صحرا میں صبر کا دریا بہتا رہا.مکہ سے کربلا تک کا سفر،6محرم
تحریر: سیدریاض حسین جاذب
چھ محرم الحرام، وہ لمحہ جب سورج کربلا کی پیاسی زمین پر یوں ڈھل رہا تھا گویا افق پر خون پھیلنے لگا ہو، اور ہوا ایسی ساکت ہو چکی تھی جیسے پوری کائنات امام حسینؑ کے صبر اور استقلال کو دم سادھے دیکھ رہی ہو۔ کربلا کے اس بے در و دیوار میدان میں نہ کوئی بازار تھا، نہ دروازہ، صرف خیمے تھے، سجدے تھے، سسکیاں تھیں، اور آنکھوں میں انتظار کی نمی۔

اسی دن ابن زیاد نے ظلم کا تاج پہن کر عمر بن سعد کو وہ آخری پیغام بھیجا، جو تاریخ کے ہر صفحے کو لہو سے رنگین کر گیا:
"حسینؑ سے یزید کے حق میں بیعت لو، ورنہ فرات کے کنارے اُن کا خون بہا دو۔”

یوں چھ محرم وہ دن بن گیا جب دریا سے پانی چھن گیا، مگر اہلِ بیتؑ کے صبر کا چشمہ چھلکنے لگا۔ عمر بن سعد نے پانچ سو سپاہیوں کو فرات پر تعینات کر دیا۔ وہ پانی جو درختوں کی جڑیں تر کرتا تھا، جانوروں کی پیاس بجھاتا تھا، آج حسینؑ کے معصوم علی اصغرؑ پر حرام ٹھہرایا گیا۔ یزیدی لشکر کے سائے میں معصوم چہرے پیاس کی شدت سے زرد ہونے لگے۔ بی بی سکینہؑ کی لرزتی آواز خیمے کے سکوت میں یوں گونجی جیسے کسی روح نے فریاد کی ہو:
"اماں… پانی…”

ماں نے آسمان کی طرف نگاہ کی، مگر لبوں پر شکوہ نہ آیا۔ صرف خاموشی سے اشک بہہ نکلے، کہ شکوہ صبر والوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔

مقتل کی روایت ہے کہ شام کے وقت بی بی سکینہؑ خیمے سے نکلی، شاید پانی کی تلاش میں، یا شاید چچا عباسؑ کی راہ تکتی ہوئی۔ امام حسینؑ نے اُسے واپس لا کر اپنی گود میں لیا، چادر میں لپیٹا، اور آسمان کی طرف خاموش نظروں سے دیکھا… گویا وقت کو گواہ بنا رہے ہوں، جیسے رب سے کہہ رہے ہوں:
"پروردگار! یہ تیرے حبیبؐ کی نواسی ہے، اور آج اسے امتِ محمدؐ نے پیاسا کر دیا۔”

اسی شام، جب افق پر غروبِ شمس کے سائے زمین پر لہو کی چادر کی طرح پھیل رہے تھے، امام حسینؑ نے اپنے جانثار اصحاب کو بلایا۔ خیموں کے درمیان خاموشی ایسی تھی جیسے موت بھی رک گئی ہو، مگر فضاؤں میں وفا کی سرگوشیاں گونج رہی تھیں۔
امامؑ نے فرمایا:
"یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں، تم میں سے جو جانا چاہے، رات کی تاریکی میں نکل جائے، میں کسی پر بار نہیں رکھتا۔”

مگر وہ اصحاب صرف محبتِ حسینؑ سے جیتے تھے۔ حبیب بن مظاہر، زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ نے یک زبان ہو کر کہا:
"مولا! اگر ہمیں سو بار قتل کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، اور پھر قتل کیا جائے، تب بھی ہم آپ کو تنہا نہ چھوڑیں گے۔”

خیموں میں بی بی زینبؑ کی آنکھوں میں وہ بے قراری تھی جو آندھی سے پہلے درختوں پر چھا جاتی ہے۔ حضرت علی اصغرؑ کی سانسیں ڈول رہی تھیں، ہونٹوں پر خشکی جم چکی تھی، اور بی بی سکینہؑ کی نیند پیاس سے روٹھ چکی تھی۔ ماں کی گود میں بچہ بے سدھ پڑا تھا، مگر زبان پر فریاد نہ تھی، کیونکہ یہ خیمے اب سجدہ گاہ بن چکے تھے۔ ان کی خاموشی فریاد سے بڑھ کر تھی۔

یزیدی فوج بڑھتی جا رہی تھی، کمک ہر سمت سے آ رہی تھی، اور خیموں کا محاصرہ لمحہ بہ لمحہ سخت ہوتا جا رہا تھا۔ مگر امام حسینؑ کے چہرے پر نہ مایوسی تھی، نہ خوف۔ ان کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو وقت کے اندھیروں کو چیر رہی تھی۔ ان کا عزم تاریخ کے ہر ظالم پر حجت بن چکا تھا۔ ان کے سکوت میں بھی ایک للکار تھی:
"ہم جھکنے نہیں آئے، ہم سر کٹانے آئے ہیں… مگر باطل کے در پر نہیں، حق کے علم کو بلند رکھنے کے لیے!”

چھ محرم وہ دن تھا جب فرات بند ہوا، مگر حسینؑ کا دریا جاری ہو گیا۔ جب سکینہؑ کی پیاس نے تاریخ کی پیشانی پر آنسو کا نشان چھوڑا۔ جب زینبؑ کے ضبط نے کربلا کی شام کو شکست دی۔ جب حسینؑ کا سجدہ وقت کے تختوں کو لرزانے لگا۔ جب ماں نے بیٹے کو پیاسا دیکھا، اور پھر بھی رب کا شکر ادا کیا۔
جب صبر نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہاکہ"تو آ سکتی ہے، مگر ہمیں شکست نہیں دے سکتی!”

یہی چھ محرم ہے، جہاں ریت تپ رہی تھی مگر سجدے ٹھنڈے تھے، جہاں زخم برس رہے تھے مگر ماتھا سجدے سے نہ اٹھا، جہاں پانی چھن گیا مگر وقار باقی رہا۔ یہ دن ہر سال آتا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ عزت صرف تلوار سے نہیں، پیاس سے بھی بچائی جاتی ہے۔
اور سچ صرف بول کر نہیں، کٹ کر بھی لکھا جاتا ہے۔

Shares: