کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ترکیہ کے خلاف اپنے چار دہائیوں پر مشتمل مسلح مزاحمتی دور کا تاریخی اختتام کرتے ہوئے اسلحے سے دستبرداری کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

عراق کے شمالی کرد خطے کے شہر سلیمانیہ میں جمعے کے روز ہونے والی ایک علامتی تقریب میں ”پی کے کے“ کے 20 سے 30 جنگجوؤں نے اپنے ہتھیار تلف کیے، مگر انہیں کسی حکومت یا فورس کے حوالے نہیں کیا گیا ،یہ پیش رفت پی کے کے کی جانب سے مئی میں دیئے گئے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کرنے کا عندیہ دیا تھا پی کے کے کو ترکی، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے اپنے ملک کے پاؤں پر پڑی خون آلود بیڑیاں اتار پھینکی ہیں،اس عمل سے نہ صرف ترکی بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔

بانی پی ٹی آئی کے بچوں کی واپسی کی بات صرف تحریک کو مرچ مصالحہ لگانے کیلئے کی گئی

سلیمانیہ میں ہونے والی تقریب سخت سیکیورٹی میں منعقد کی گئی جس میں پی کے کے جنگجوؤں نے اپنے ہتھیار خود تلف کیے۔ یہ عمل پورے موسمِ گرما میں مختلف مراحل میں مکمل کیا جائے گا، جس کی نگرانی ترکی، عراق اور کرد علاقائی حکومت مشترکہ طور پر کر رہی ہیں۔

پی کے کے کے قیدی سربراہ عبداللہ اوجلان، جو 1999 سے ترکی کے جزیرہ امرالی میں قید ہیں، نے جون میں ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں اس عمل کو ”مسلح جدوجہد سے جمہوری سیاست اور قانون کی جانب رضاکارانہ منتقلی“ قرار دیا اور اسے ”تاریخی کامیابی“ قرار دیا۔

برازیل کا بھارت سے آکاش میزائل سسٹم خریدنے سے انکار

الجزیرہ کے مطابق یہ صرف آغاز ہے، ابھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے یہ اقدام ترک صدر اردوان کی منظوری سے ہوا اور اب وہ جماعتیں جو پہلے اس عمل کو غداری کہتی تھیں، اب اس کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس میں نیشنل موومنٹ پارٹی (MHP) اور مرکزی اپوزیشن جماعت CHP بھی شامل ہیں۔

Shares: