اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کو اسلام آباد میں منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک اہم واقعے کا ذکر کیا، جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو کو نظر انداز کرنے کے اپنے فیصلے کی تفصیلات بتائیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ نیتن یاہو ان کے بعد اجلاس سے خطاب کریں گے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ نیتن یاہو اسی کمرے میں موجود ہوں گے جہاں دوسرے رہنما تقریر کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی کے بارے میں کہا، "میں نے اس کمرے میں اس طرح بیٹھنے کا فیصلہ کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم پیچھے سے آئیں اور گزر جائیں، تاکہ مجھے ان کے سامنے آنے کا موقع نہ ملے۔ جب وہ گزر جائیں گے تو میں بھی پیچھے سے نکل جاؤں گا تاکہ مجھے ان سے ہاتھ ملانے کی نوبت نہ آئے۔
شہباز شریف نے اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا نیتن یاہو کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا، مگر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جیسے ہی نیتن یاہو خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، ان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا۔انہوں نے کہا، "یہ کوئی بتانے کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ باتیں دل کی اتاہ گہرائیوں سے ہیں۔” ان کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستانی حکومت اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے مظالم اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے حوالے سے کتنا حساس ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے اس فیصلے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی جا رہی ہے، کیونکہ یہ بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
کثیر الجماعتی کانفرنس میں موجود شرکاء نے وزیر اعظم کے اس موقف کو سراہا، اور ان کے فیصلے کو انسانی حقوق کے لیے ایک مضبوط پیغام کے طور پر دیکھا۔ یہ واقعہ بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کی فعال شرکت اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ شہباز شریف کی جانب سے یہ اقدام ان کی حکومت کے اس عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی فورمز پر اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔

Shares: