کر دیتا ہے مٹی کے اندر بھی اجالا سا
ہو جائے اگر کوئی مینار سپرد خاک
احفاظ الرحمان اردو کے معروف شاعر، ادیب،صحافی اور کالم نگار تھے۔ وہ 04 اپریل 1942 کو جبل پور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
(1)چین،عظیم انقلاب،عظیم تاریخ
کراچی،فرید پبلشرز ،
(2)چیئرمین ماؤ کے ساتھ لانگ مارچ۔ ترجمہ
(3)نئی الف لیلہ(Nai Alif Laila)
کراچی،فرید پبلشرز، (شاعری)
(4)چو این لائی(Chou En Lai)
کراچی،فرید پبلشرز، (سوانح)
(5)تاریخِ چین۔ کراچی۔ فرید بک پبلشرز
(6)جنگ جاری رہے گی
کراچی،سٹی بک پوائنٹ، (مضامین)
احفاظ الرحمن
۔۔۔۔۔۔
زندہ ہے زندگی
۔۔۔۔۔۔
زاہدہ حنا
۔۔۔۔۔۔
زندگی کے کئی برس اُس احفاظ الرحمن کے ساتھ گزرے جو شعلہ نفس اور شرر بار تھا۔ یہ وہ دن تھے جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا بجتا تھا۔ باضمیر صحافیوں کا مقدر زنداں تھا، ان کی پشت کوڑوں سے ادھیڑی جاتی تھی اور معاش کا پرندہ ان کے گھر کی منڈیر سے اڑا دیا جاتا تھا، اُس کے پر کتر دیے جاتے تھے۔ ایسے میں کئی تھے جو خموشی سے ملک چھوڑ گئے۔ چند نے سرِ تسلیم خم کر لینے میں عافیت سمجھی اور کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے دمشق کے دربار کی طرف قدم نہیں اٹھایا، نہ قلم کی آبرو کسی ملٹی نیشنل کے ہاتھوں فروخت کی۔ نوک قلم سے لفظوں کی مزدوری کی اور اپنے گھر والوں کو روکھی سوکھی کھلائی، ادھڑے ہوئے جوتوں اور گِھسی ہوئی قمیصوں میں زندگی گزارنے کو اپنا اعزاز جانا۔
احفاظ کا اور میرا ان ہی کڑے موسموں کا ساتھ ہے۔ ہم نے بھنی ہوئی شکرقندی پر نمک اور کُٹی ہوئی سرخ مرچ بُرک کر کھائی اور یوں خوش ہوئے جیسے مغلئی دستر خوان کے شاہی ٹکڑوں سے لطف اندوز ہوئے ہوں۔ مفلسی کا جشن مناتے ہوئے بُھنے ہوئے گرم چنوں کی سوندھی خوشبو ہماری سنگی ساتھی تھی۔ احفاظ اگر یہ مشکل زندگی ہنس کر گزار سکے تو اس لیے کہ مہ ناز ان کے دکھ سکھ کی شریک تھی اور صبر کے دریا میں شکر کی نائو ہنستے ہوئے کھیتی تھی۔ میرا جی خوش ہوا کہ اپنے نئے مجموعے ’زندہ ہے زندگی‘ کا انتساب احفاظ نے مہ ناز اور اپنے بچوں کے نام کیا ہے۔
احفاظ الرحمان سے میری دوستی پر 35 برس کے سورج طلوع ہوئے اور چاند چمک گئے۔ پھر وہ دن آئے جب احفاظ، مہ ناز اور بچوں کے ساتھ چین چلے گئے‘ میں نے انگلستان کا رخ کیا۔ وہ دونوں وہاں استقامت سے آٹھ برس ڈٹے رہے۔ مجھ سے لندن میں نہ رہا گیا اس لیے بی بی سی کو رخصتی سلام کیا اور ڈیڑھ برس میں ہی واپس آ گئی۔ عرصۂ دراز بعد ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وقت نے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان کی نازک مزاجی اور اپنے ایمان پر یقینِ کامل آج بھی ان کے وجود کا بنیادی جزو ہیں۔
جہاں تک ان کے ایمانِ کامل کا معاملہ ہے تو اس کی گواہ ان کی تحریریں‘ ان کی صحافتی جدوجہد اور کراچی پریس کلب کے در و دیوار ہیں۔ انھوں نے کتنی ہی جیلیں کاٹیں‘ کتنی ہی لاٹھیاں کھائیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کتنی ہی تحریصات اور ترغیبات کے دام سے بچ کر نکلے، اس کا حساب ان کے قریب ترین لوگ خوب جانتے ہیں۔ زیادہ پرانی نہیں 2007ء کی بات ہے یہ جنرل مشرف کی بے لگام حکمرانی کے آخری دن تھے، جب میں نے پریس کلب کے سامنے انھیں سڑک پر گرتے ہوئے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے اور گرفتاری دیتے دیکھا۔
انھوں نے نثر لکھی، شاعری کی ۔ ان کے لکھے ہوئے اور بولے ہوئے ہر لفظ کا قبلہ راست رہا۔ ہمارے یہاں ایسے متعدد شاعر گزرے ہیں، جنھوں نے بغاوت اور سیاستِ دوراں کو اپنی شاعری کے ماتھے کا جھومر بنایا اور غیروں کے یہ بول سہے کہ شاعری اور سیاست کا بھلا کیا سمبندھ۔ احفاظ بھی ان ہی میں سے ہیں جن کی شاعری میں سیاست لہو کی طرح گردش کرتی ہے۔
احفاظ الرحمان بغاوت، آزادی اور جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے اس نام دار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا شجرۂ نسب ڈھائی ہزار سال پرانا ہے اور یونانی ادیبوں سے ملتا ہے اور جس میں اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے کیسے نامی گرامی برطانوی، فرانسیسی، امریکی، ایرانی، لبنانی، عراقی اور فلسطینی شاعروں کے نام آتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جو رگِ گل سے بلبل کے پر نہیں باندھتے۔ جن کی لکھی ہوئی سطروں میں اپنے عہد کا آشوب سانس لیتا ہے۔ ہم عشقی، نازک الملائکہ اور نزار قبانی کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ کیسے بُھلائے جا سکتے ہیں جو دنیا کے سات براعظموں میں زندہ رہے اور انسانوں کے بارے میں لکھتے رہے۔ جنھوں نے رنگ، نسل، مذہب اور علاقے کی تفریق کے بغیر مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، ان ہی میں سے ایک جون لینن تھا جو بیٹیلز گروپ کا سب سے متحرک رکن تھا۔
اس کے 25 کروڑ سے زیادہ البم فروخت ہو چکے ہیں اس کا شمار برطانیہ کی ہزار برس کی تاریخ کے چند عظیم ترین موسیقاروں اور گلوکاروں میں ہوتا تھا۔ انگریزوں نے اسے اپنی تاریخ کی 100 عظیم شخصیات کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا۔ وہ امن و انصاف کی جدوجہد میں پیش پیش رہا‘ اس نے ویت نام کی جنگ کے خلاف اپنی شاعری اور گلوکاری سے نوجوانوں کو بغاوت پر آمادہ کیا۔
انہیں ملکہ برطانیہ نے ممبر آف دی آرڈر آف دی برٹش امپائر اپنے ہاتھوں سے دیا تھا لیکن بیافرا نائیجیریا کے تنازعہ میں برطانوی مداخلت اور ویت نام میں برطانیہ کی امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے برطانیہ کا یہ اعلیٰ ترین اعزاز واپس کر دیا تھا پھر انہوں نے امریکا میں رہائش اختیار کی جہاں ایف بی آئی نے اس کی کڑی نگرانی شروع کر دی‘ وہ حق و انصاف کی بات کر رہا تھا، سی آئی اے نے طے کیا کہ وہ اپنے سیاسی نظریات کا زہر اپنے گانوں کے ذریعے ان گنت امریکی نوجوانوں میں منتقل کر رہا ہے۔ اس جرم بے گناہی میں وہ قتل کر دیا گیا۔ احفاظ نے اس کے گیت ترجمہ کیے جو ’’زندہ ہے زندگی‘‘ میں شامل ہیں۔
احفاظ نے باب ڈیلن ایسے باغی گلوکار اور شاعر کے گیت کے ترجمے بھی اپنے تازہ مجموعے میں شامل کیے ہیں۔ یہ وہی باب ڈیلن ہے جس نے امریکی سماج میں طاقت اور دولت کی بازی گری اور منافقانہ سیاست کی سفاکیوں کو بے نقاب کیا۔ جسے ٹائم میگزین نے بیسویں صدی کی سب سے اثر انگیز اور پرُکشش شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور جو ایک دردمند دانش ور کی حیثیت سے امریکی سماج کی منتشر اور متضاد تصویروں کے اندر جھانکتا ہے‘ انھیں ٹٹولتا ہے اور ان کے اندر اپنی موسیقی کے تیکھے اور باغی رنگ بھر دیتا ہے۔ اس کے خیالات کو وہ اردو کا جامہ یوں پہناتے ہیں:
تم چاہتے ہو، میں مان لوں کہ… عالمی جنگ جیتی جا سکتی ہے… لیکن میں تمہاری آنکھوں کے اندر… اتر سکتا ہوں… اور میں تمہارے دماغوں کے اندر… جھانک سکتا ہوں… تم ٹریگر فکس کرتے ہو… کہ لوگ اس سے فائر کریں… پھر تم آرام سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہو۔‘‘
احفاظ ہمیشہ خوابوں کے تعاقب میں رہے اور اسی تعاقب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’’زندگی بہت سخت جان، بہت توانا ہے۔ زندگی محبت کی خوشبو پھیلاتی ہے اور وہ نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ زندگی کے ہاتھ پہیا ایجاد کرتے ہیں، اس کے دشمن اپنی بالادستی اور برتری کی ہوس میں ایٹم بم بناتے ہیں۔
دوسروں کو اپنا محتاج اور غلام بنانے کی یہ ہوس سیاسی اور معاشی غلامی کا چلن عام کرتی ہے، نا انصافی کی بھیانک شکلوں کو فروغ دیتی ہے، اونچ نیچ کی دیواریں کھڑی کرتی ہے، لمحہ لمحہ محرومیوں کا زہر پینے والے مجبور اور نادار لوگوں پر قہقہے لگاتی ہے، رات دن مئے عشرت کے جام لنڈھانے والے حاکموں کو بڑھاوا دیتی ہے اور رنگ، نسل، مذہبی عقیدے اور جغرافیائی حد بندیوں کے نام پر ہر گلی، ہر کوچے کو نفرتوں اور تعصبات کے سانپوں سے بھر دیتی ہے۔
ہم اس خونیں تماشے کے چشم دید گواہ ہیں۔ ہمارے شہروں پر یہ عذاب گزر رہے ہیں۔ ہم ملکوں ملکوں استعمار کی مسلط کردہ جنگیں دیکھتے ہیں، درندہ صفت دہشت گردوں کے خود کش حملوں کو سہتے ہیں۔ شہروں شہروں خون کا دریا بہتا دیکھتے ہیں۔ اسی خوں آشام قبیلے کے بارے میں احفاظ نے لکھا: فصل کانٹوں کی جو اُگاتے ہیں… پھول کے دل کا حال کیا جانیں… خون جن کی غذا ہے، وہ وحشی… پیار کی بول چال کیا جانیں… بچیوں پر جو وار کرتے ہیں… مامتا کا ملال کیا جانیں… امن کے دشمنوں کی بم باری… موت کے خوگروں کی خوں باری۔
ہمارے شہر جس آشوب سے دوچار ہیں، بارود ان پر جس طور برستی ہے، ہنستے ہوئے بچوں کی چلبلاہٹیں جس طرح خون میں نہلائی جاتی ہیں، اس کی اذیت انھیں فیضؔ کے اس مصرعے کی تصویر بنا دیتی ہے کہ ’آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی‘ اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔… کہیں سے کوئی روشنی… کہیں سے کوئی راگنی… اُمڈ کے آئے اور… ملال کی رگوں سے کلفتیں نچوڑ لے… فریب خوردہ شہر کو صلیب سے اتار لے۔
فریب خوردہ شہر صلیب سے کب اترے گا اور کون اسے اتارے گا، ہم نہیں جانتے، وہ بھی اس سے آگاہ نہیں، اسی لیے وہ ’ہوائے ملال کی تیزی‘ کا شکوہ کر نے کے ساتھ ہی یہ مژدہ سناتے ہیں کہ ’قفس کوئی بھی ہو، اس کا مقدر ٹوٹ جانا ہے زندگی پر ان کے ایمان کا اندازہ ان سطروں سے ہوتا ہے۔… وقت صدیوں سے یوں ہی… مچلتا ہوا، گنگناتا ہوا، رقص کرتا ہوا… ایک پیغام لکھتا رہا سدا… یہ زمیں سانس لیتی رہے گی سدا… زندگی کا ترانہ تو سرسبز ہے… کچھ رہے نہ رہے، زندہ ہے زندگی۔
ان کی نظموں میں نوم چومسکی، خلیل جبران اور ہوزے مارتی کے حوالے ہیں، ان کی سطروں میں گزرے ہوئے اور موجود دانشوروں کے خیال کی خوشبو سانس لیتی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ انصاف ہے جو کسی سماج کی تعمیر کرتا ہے۔ ناانصافی… انتشار اور زوال کو جنم دیتی ہے۔ طاقت… انصاف کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی ہے اور جہاں جمہوریت نہ ہو، وہاں سرسبز پیڑ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔
احفاظ کے لفظوں اور لکھت میں جو طاقت اور دانش ہے، وہ ان کی شاعری میں جھلکتی ہے اور اسے دیکھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ کاش احفاظ اپنا زیادہ وقت اپنی تخلیقات کو دے سکیں اور اپنے پیچھے دانشوری اور شاعری کا ایک شاندار خزینہ چھوڑ جائیں۔
(آرٹس کونسل کراچی کی چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں پڑھا گیا)
احفاظ الرحمان 12 اپریل 2020ء کو کراچی میں خالق حقیقی سے جا ملے-