فاخرہ بتول موجودہ دور کی مقبول ترین شاعرہ

تم جسے دیکھ کے دل ہار چکے ہو صاحب دیکھ لینا کہیں تصویر پرانی ہی نہ ہو
0
32
poet

تم جسے دیکھ کے دل ہار چکے ہو صاحب
دیکھ لینا کہیں تصویر پرانی ہی نہ ہو

فاخرہ بتول

پاکستان کی نامور شاعرہ فاخرہ بتول 14 اگست 1964ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئی۔ میٹرک گورنمنٹ پاک اسلامیہ گرلز ہائی سکول سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی، بی اے گورنمنٹ وقاراَنساء کالج فار وومن ٹیپو روڈ راولپنڈی اور ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔
فاخرہ بتول موجودہ دور کی مقبول ترین شاعرات کی فہرست میں شامل ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے وہ عام قاری کی نبض شناس ہیں اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے احساسات و جذبات کو شعری پیرہن عطا کرتی ہیں ان کے ادبی اثاثے میں تقریباً ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ کتب ہیں جن کے نام
۔ (1)۔پلکیں بھیگی بھیگی سی
۔ (2)۔چاند نے بادل اوڑھ لیا
۔ (3)۔کہو،وہ چاند کیسا تھا؟
۔ (4)۔اب بھرے شہر میں مجھے ڈھونڈو
۔ (5)-سمندر پوچھتا ھو گا
۔ (6)-دور مت نکل جانا
۔ (7)-بھُلا دیا ناں ؟
۔ (8)-گُلاب خوشبو بنا گیا ھے
۔ (9)-محبت کی نہیں تم نے
۔ (10)-محبت خاص تحفہ ھے
۔ (11)-دشتِ تنہائی میں (انتخاب)
۔ (12)-شرعادتیں (طنز و مزاح)
۔ (13)-سرگوشی (کالم)
۔ (14)۔بچٌےسارے سچٌے
۔ (بچوں کے لئے نظمیں)
۔ (15)-اُسے روکتے بھی تو کس لئے؟
۔ (16)- میراثِ ولایت (حسینی کلام)
۔ (17)- the Alien Eyes
۔ English Poems

فاخرہ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ورلڈ نیشن رائٹرز یونین کی جانب سے انہیں ” دی بیسٹ پوئٹ آف دی ورلڈ 2017″ قرار دے کر 2017 کی بہترین شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا جبکہ فرینگ برڈی انٹرنشنل لٹریری ایوارڈ 2014 فرام گورنمنٹ آف البانیا اور آئی پی ٹی آر سی انٹرنیشنل ایوارڈ 2013 فرام گورنمنٹ آف چائنہ سے بھی نوازا گیا۔

غزل
۔۔۔۔۔
بھول جانے کا تو بس ایک بہانہ ہوگا
کہ بہر طور اسے یاد تو آنا ہوگا
کوئی موسم ہو ، مہکتا رہے شاداب رہے
اپنی آنکھوں کو کنول ایسا بنانا ہوگا
بند مٹھی سے جو اڑ جاتی ہے قسمت کی پری
اس ہتھیلی میں کوئی چھید پرانا ہوگا
آبلے پاؤں کے مہکیں تو مگر درد نہ دیں
دشت میں ریت کے ذروں کو بتانا ہوگا
زاویے اس کی نگاہوں کے بڑے قاتل ہیں
سامنے اس کے بہت سوچ کے جانا ہوگا
گھاؤ کتنا بھی پرانا ہو ، بہرحال اسے
کچے موسم کی شرارت سے بچانا ہوگا
ہاتھ لکھنے پہ مصر ، خوف زمانے کا بتول
پیڑ پر نام کوئی لکھ کے مٹانا ہوگا

متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر شہر کو احساس تھا غریبوں کا
سو اس نے بھوک کو تقسیم کر دیا ان میں

چونک کر نام پوچھنے والے
بُھول جانے کی انتہا کر دی

دن،جگہ،وقت بتانے کی بھی زحمت ہو جناب!
آپ سے شرفِ مُلاقات،کہاں مُمکن ہے ؟ ؟ ؟

البم کھول کے دیکھا تو احساس ہوا
کیسے کیسے لوگ بھُلانے پڑتے ہیں

تُو نے رستہ بدل لیا ورنہ
ہم ترے ساتھ دور تک جاتے

تم جسے دیکھ کے دل ہار چُکے ہو صاحب!
دیکھ لینا کہیں تصویر پُرانی ہی نہ ہو

اِس کیلنڈر میں کچھ نیا ہے بتول!
یہ بچھڑے کا سال ہے , کیاہے

میں نے سمجھا تھا سمندر تُم کو
”تھا“ کا مطلب تُمھیں آتا ہو گا؟

جا رہے ہو تو ساتھ لے جاؤ
اپنے سامان میں مری انکھیں

تم نے گُم کر دیا تھا دانستہ
اب بھرے شہر میں مجھے ڈھونڈو

فن سے کیسے بھوک مٹائے بچوں کی؟
سوچ رہا ہے آج کا یہ فنکار ابھی

خوابوں کو جا کے بیچ دے ، آنسو خرید لے
اتنا غیور آج کا فنکار بھی نہیں

بہت مصروف اب رہنے لگا ھے
گلی سے جو کبھی جاتا نہیں تھا

اُسے جاتے ہوئے دیکھا ہی کیوں تھا
وہ منظر آنکھ میں پتھرا گیا نا… ؟

عشق پھر ہار گیا ، زہر پیالہ جیتا
یہ عجب موڑ کہانی میں کہاں سے آیا؟

یہ کسی خواب سے جاگا ھوا منظر ہی نہ ھو
ترے ہاتھوں میں مرا ہاتھ کہاں مُمکن ہے !

ہاتھ سے ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
کوئی آسان ہے وفا کرنا ؟

ہونی ہے تو اک بار ہی ہو جائے محبت
یہ بھُول ہے ایسی کہ دوبارہ نہیں کرتے

یہ شُمارہ ہے زندگی کا اگر
ہجر اِس میں شمار ہے صاحب!

تم کو واپس بُلا رہا ہے یہ دل
کیا کوئی التجا ضروری ہے؟

یونہی دیکھا ہے بس گھڑی کی طرف
آپ کا انتظار تھوڑی ہے

میں نے خوشبو کی حقیقت پوچھی
پھول خاموش رہا دیر تلک

گھاؤ دل کا تو بھر گیا لیکن
ترا احسان بھولتا ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلاش ، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Leave a reply