معروف شاعرہ،اسکرپٹ رائٹر اور میزبان نورین طلعت عروبہ

0
56

اگر آداب کے اعلی قرینے سے نکل جائے
دل گستاخ سے کہہ دو مدینے سے نکل جائے

نورین طلعت عروبہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر اٹک میں 04 مارچ 1957ء کو پیدا ہونے والی نورین طلعت عروبہ ایک ایسی شاعرہ کا نام ہے جس نے دور طالب علمی سے اپنی دھواں دھار تقاریر اور غزل، نظم میں وہ نام بنایا جس کی تمنا ہر تخلیق کار رکھتا ہے۔ کالج سے یونیورسٹی کے چھ برسوں میں 342 انعامات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن نورین کو اس سلسلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

شاعری کا تحفہ اپنے شاعر دادا ڈاکٹر اظفر حسین خان اور والد محترم معروف صحافی اور شاعر جناب انوار فیروز سے ملا لیکن اس سلسلے میں جومحنت ان کی والدہ فہمیدہ انوار نے کی،نورین اپنی تمام کامیابیوں کا سہرا ان کے سرباندھتی ہیں دور طالب علمی میں ہی ان کی غزلیں، پرویز مہدی، اقبال باہو، اور عطااللہ عینی خیلوی جیسے بڑے گلوکاروں نے گائیں۔

دور طالب علمی ہی میں اپنے بہترین لہجے شاندار تلفظ اور متاثر کن آواز کی بدولت وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویِژن کی ضرورت بن گئیں۔ اسکرپٹ رائٹنگ کی صلاحیت کے باعث ڈھیروں شوز لکھے اور میزبانی کے فرائض سر انجام دیئے۔

مشاعروں کی نظامت پی ٹی وی سے جاری تھی کہ نیوز کاسٹر کی حیثیت سے منتخب کر لی گئیں۔ ریڈیو پر پنجابی اور پاکستانی ٹیلی ویژن سے اردو میں بیک وقت خبریں پڑھنے والی پہلی نیوز کاسٹر بنیںجدہ میں قیام کے دوران وہاں خواتین کی پہلی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’سلسلہ‘‘ کے نام سے بنا کر اس کی بانی صدر بنیں۔

2002 میں ان کی نعتیہ شاعری پر مشتمل کتاب ’’حاضری‘‘ 72 نعتوں کے ساتھ کسی بھی شاعرہ کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے جس پر صوبائی اور قومی سطح پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ اپنی تینوں کتابوں پر صدارتی ایوارڈ پانے والی پاکستانی شاعرہ ہیں آج کل امریکہ کی ریاست ورجینیا واسٹنگٹن ڈی سی میں قیام پذیر ہیں۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
عجب جنوں ہے کہ احوال کی خبر بھی نہیں
ہم اپنے گھر بھی نہیں اور در بدر بھی نہیں
وہ آنے والی رتوں کا حساب لیتے ہیں
ہمیں تو لمحۂ موجود کی خبر بھی نہیں
بھلا ہماری شہادت کو کون جانے گا
ہماری آدھی گواہی تو معتبر بھی نہیں
بجھا سکوں نہ اسے میں ترے اشارے پر
چراغ جاں سے مجھے پیار اس قدر بھی نہیں
یہ در کھلے گا خدا جانے کس کی کوشش سے
ہمارے ہاتھ میں اب کے کوئی ہنر بھی نہیں
میں اک نشست میں سارا تجھے سنا ڈالوں
مرا فسانۂ غم اتنا مختصر بھی نہیں
ترا یہ ترک تعلق بھی حوصلہ کن ہے
کہ اب کسی سے بچھڑنے کا دل کو ڈر بھی نہیں

غزل
۔۔۔۔۔۔
نمو کو شاخ کے آثار تک پہنچنا ہے
بکھر کے پھول نے مہکار تک پہنچنا ہے
ہم اپنی سلطنت شعر میں بہت خوش ہیں
وہ اور ہیں جنہیں دربار تک پہنچنا ہے
غریب شہر کے بہتے لہو کا ذکر فقط
وہ سرخیاں جنہیں اخبار تک پہنچنا ہے
ہمیں جو چپ سی لگی ہے یہ بے سبب تو نہیں
کسی خیال کو اظہار تک پہنچنا ہے
طلسم عمر کی تعریف ساری اتنی سی
اک آئنہ جسے زنگار تک پہنچنا ہے
کچھ ایسے لوگ جو شانوں پہ سر نہیں رکھتے
مگر یہ زعم کہ دستار تک پہنچنا ہے
وہ دن گئے کہ کوئی اشک پونچھنے آئے
یہاں تو آپ کو غم خوار تک پہنچنا ہے
۔۔۔۔
اگر آداب کے اعلیٰ قرینے سے نکل جائے
دل گستاخ سے کہہ دو مدینے سے نکل جائے
یہ شہر علم ہے اس میں ابو جہلی نہیں چلتی
اٹھے جاہل اٹھے اور اس خزینے سے نکل جائے

Leave a reply