معروف شاعر شہزاد احمد کی
آج ساتویں برسی ہے *
چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی
وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی
وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی
….
جناب شہزاد احمد ایک سچے شاعر تھے انہوں نے "جام بکف” شاعروں کی طرح اپنی تشہیر کی خاطر کوئی منفی راستہ نہیں اپنایا حالانکہ وہ ادبی ادارے کے سربراہ بھی رہے۔ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے ۔۔بہت دیر تک اس شعر کی کیفیت آپ کو سرشار رکھے گی۔۔!!
اس راہ سے گزرے تھے کبھی اہل نظر بھی
اس خاک کو چہرے پہ ملو آنکھ میں ڈالو