بھارت کی الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جو نوجوان جوڑے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں، وہ بطور حق پولیس تحفظ کا مطالبہ نہیں کر سکتے، جب تک کہ ان کی زندگی یا آزادی کو کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہ ہو۔
یہ فیصلہ جسٹس سوربھ سریواستو نے شریا کیسروانی اور ان کے شوہر کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران دیا۔ درخواست گزار جوڑے نے اپنی پرامن ازدواجی زندگی میں مداخلت نہ کرنے اور پولیس تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی تھی۔عدالت نے جوڑے کی جانب سے پیش کی گئی درخواست اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد قرار دیا کہ درخواست گزاروں کی زندگی یا آزادی کو کسی سنجیدہ خطرے کے شواہد موجود نہیں ہیں، لہٰذا ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ “ایسے جوڑوں کو، جو محض اپنی مرضی سے شادی کر کے فرار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے عدالتیں پولیس تحفظ فراہم کرنے کی پابند نہیں ہیں۔”یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے معروف مقدمے "لتا سنگھ بمقابلہ ریاست اتر پردیش” کے فیصلے کی روشنی میں دیے گئے، جس میں کہا گیا تھا کہ عدالتیں ہر ایسے جوڑے کو تحفظ دینے کے لیے نہیں ہیں جو سماجی دباؤ سے بچنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے نہ تو کسی خاص دھمکی یا حملے کی نشاندہی کی گئی ہے، نہ ہی کوئی شکایت پولیس کو دی گئی ہے جس پر ایف آئی آر درج کی جاتی۔البتہ عدالت نے یہ اعتراف کیا کہ درخواست گزاروں نے ضلع چترکوٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ایک درخواست دی ہے۔ اس پر عدالت نے ہدایت دی کہ “اگر متعلقہ پولیس افسران کو کسی قسم کے حقیقی خطرے کا اندیشہ محسوس ہوتا ہے تو وہ قانون کے مطابق مناسب کارروائی کریں۔”
عدالت نے یہ واضح کیا کہ “اگر کوئی شخص ان سے بدتمیزی کرتا ہے یا انہیں نقصان پہنچاتا ہے، تو اس صورت میں عدالتیں اور پولیس حکام ان کی مدد کے لیے موجود ہیں۔”فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے 4 اپریل 2025 کو درخواست خارج کر دی اور کہا کہ محض شادی کر لینے کی بنیاد پر پولیس تحفظ کو بطور حق مانگنا جائز نہیں ہے۔







