معیشت کی تباہی: سیاست، کرپٹ نظام اور عوام پر بوجھ
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
ہر دورِ حکومت اپنے ماضی کو بھول کر جانے والی حکومت پر سارا ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوامی شعور میں کمی اور زبان بندی کے ساتھ انصاف کرنے والے اداروں کی خاموشی ہے۔ عوام الناس کے مسائل پر آئیں، آج بات کرتے ہیں بجٹ کے حوالے سے، جو عوام پچھلے 76 سالوں سے ایک ہی سرکاری سطح کے قصیدہ کی صورت سنتی آ رہی ہے۔
ہر سال کی طرح جب حکومتیں بجٹ پیش کرتی ہیں، تو ایک بار پھر عوام کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ معیشت مشکل دور سے گزر رہی ہے، وسائل محدود ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں، اور "قوم کو قربانی دینی ہو گی”۔ لیکن قوم کب تک قربانی دیتی رہے گی؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ قربانی واقعی قوم دے رہی ہے یا صرف غریب اور متوسط طبقہ؟ کیا اشرافیہ، وزرا، بیوروکریٹس اور سیاسی اشرافیہ کسی قربانی میں شریک ہیں؟ جی ہاں، ہماری موجودہ آبادی کے ساتھ ساتھ وہ بھی قصور وار ہیں جو ابھی اس دنیا میں نہیں آئے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ کیا وہ بھی بڑھتے ہوئے ٹیکس، مہنگائی اور بیروزگاری کی بھٹی میں جل رہے ہیں؟ جواب نہایت تلخ اور سادہ ہے: "نہیں”۔
پاکستان کی معیشت آج جس نہج پر کھڑی ہے، وہ کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومتی دور کی وجہ سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جاری بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی، اقربا پروری، کرپشن اور بیوروکریسی کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ سب کو سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے، مگر کب تک؟ جو بھی حکومت آئی، اس نے اپنے مفادات کے گرد پالیسی گھمائی۔ ہر حکومت کا نعرہ "معاشی بہتری” تھا، لیکن نتیجہ "مزید قرض، کمزور روپیہ، بڑھتی مہنگائی” نکلا۔
ملکی سیاست میں ہم اکثر سیاست دانوں کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بیوروکریسی اصل اقتدار کی روح رواں تھی اور رہے گی، جب تک انصاف کا نظام پاکستان میں رائج نہیں ہوتا۔ فائل کو روکنا، منصوبے کو دبانا، منظورِ نظر ٹھیکیدار کو نوازنا، اور قانون کی تشریح اپنے فائدے کے مطابق کرنا — یہ سب اُس بدعنوان نظام کا حصہ ہے جو کئی دہائیوں سے عوام کی امیدوں کو نگل رہا ہے، اور دور تک اس کے بارے میں کوئی واضح تبدیلی آتی نظر نہیں آ رہی۔
اربوں روپے کے فنڈز صرف کاغذوں میں استعمال ہوتے ہیں، حقیقت میں سڑکیں، سکول، ہسپتال، ڈرینج، ٹیکنالوجی، سب کچھ خالی خول رہ جاتا ہے۔
2024 کے سروے کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 7 سے 10 ارب ڈالر کرپشن کی نذر کر دیتا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمّہ دار کون ہے؟ شاید اس کا جواب آپ کو بھی معلوم نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر سال اپنی معیشت کو اتنا نقصان خود اپنے ہاتھوں سے پہنچاتے ہیں، جتنا کوئی بیرونی دشمن بھی نہ دے سکے۔
کرپشن صرف نوٹ کھانے کا نام نہیں، یہ نااہل افراد کو بھرتی کرنا، یہ پاکستان کے تمام اداروں میں ہے۔ کوئی بھی سرکاری بلکہ نیم سرکاری ادارے بھی اس ترقی میں شامل ہیں۔ غیر شفاف ٹینڈرز، سیاسی وفاداری پر تقرریاں اور اپنے لوگوں کو نوازنے کا مجموعہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایک معمول بن چکا ہے۔
جب عوام کو آٹا، چینی، دوائی اور روزگار کے لیے لائنوں میں کھڑا ہونا پڑے اور ان کے "خادمِ اعلیٰ” بیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں گزر رہے ہوں، تو یہ صرف معاشی عدم توازن نہیں، اخلاقی دیوالیہ پن بھی ہے۔
اربوں روپے ہر سال وزیروں، مشیروں، سفیروں، کمشنروں، سیکریٹریز اور اعلیٰ عہدے داران کے پروٹوکول، گاڑیوں، دفاتر، غیر ملکی دوروں اور تقریبات پر خرچ کیے جاتے ہیں ، یہ وہ پیسہ ہے جو صحت، تعلیم اور عوامی فلاح پر لگنا چاہیے۔
ہر بار معاشی بحران آئے تو پہلا ہدف عوام بنتی ہے:
بجلی مہنگی، ماہرِ اقتصادیات ایسا فارمولا بنا دیتے ہیں کہ آپ کی عقل دنگ رہ جاتی ہے، جیسے 200 یونٹ اور 201 یونٹ کا فارمولا شاید دنیا میں پہلی بار استعمال کیا گیا ہو۔گیس پر سبسڈی ختم،پیٹرول پر لیوی،اشیائے خور و نوش پر ٹیکس،ادویات مہنگی،تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ، مگر تنخواہیں معمول کے مطابق جبکہ مہنگائی کا تناسب عوام کی سوچ سمجھ سے بالاتر۔
عوام کو بتایا جاتا ہے کہ "یہ سب ملکی بقاء کے لیے ہے” لیکن اشرافیہ کے لیے بقاء کا کوئی بحران نہیں، ان کے لیے تو یہ سارا نظام ایک محفوظ جنت ہے۔
یہ سب باتیں تنقید نہیں بلکہ زمینی حقیقتیں ہیں۔ حل بھی موجود ہیں، اس پر آنے والے کالم میں بات کریں گے۔