پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیش رفت
تحریر:ضیاء الحق سرحدی پشاور
افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لیے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے اس لیے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965 اور بعد ازاں 2010 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جن کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا پابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔ یاد رہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طورخم اور چمن کے راستوں سے کرتا ہے لیکن کچھ عرصے سے پاک افغان باہمی تجارت میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارت زبوں حالی کی طرف گامزن ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کی صورت حال ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں مگر حالیہ برسوں میں سفارتی کشیدگی، سیکیورٹی خدشات اور پالیسیوں میں عدم تسلسل نے انہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم جو کبھی ڈھائی ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا تھا، اب گھٹ کر ڈیڑھ ارب ڈالرز تک آ چکا ہے۔ خاص طور پر طورخم سرحد کی بندش، جو تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے جاری رہی، نے تجارتی سرگرمیوں کو تقریباً مفلوج کر دیا ہے اور تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عام شہریوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ سرحد کی بندش کے باعث پاک افغان شاہراہ پر مال سے لدے سینکڑوں ٹرک مختلف مقامات پر کھڑے رہے، جن میں پڑی اشیاء خراب ہو گئیں۔
گزشتہ دنوں افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کے دورہ کابل کے حوالے سے نتیجہ خیز ملاقاتوں اور اہم پیش رفت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ حکام سے حالیہ ملاقاتوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ افغان حکام کے سامنے رکھا گیا ہے۔ جے سی سی اجلاس اپریل کے وسط میں کابل میں ہوگا۔ عید کے فوری بعد افغان وزیر تجارت اسلام آباد آئیں گے۔ مصدقہ ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسلام آباد اور کابل کے رابطوں کا شیڈول تیار کر لیا گیا ہے جس کی تفصیلات کو حتمی شکل بھی دے دی گئی ہے، پہلی بار افغان طالبان میں ٹی ٹی پی پر کچھ لچک نظر آئی، پاک افغان مشترکہ کو آرڈی نیشن کمیٹی اجلاس 15 اپریل سے پہلے کابل میں ہوگا۔ نمائندہ خصوصی سول عسکری حکام کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ تجارت و معاشی تعاون کے فروغ کا لائحہ عمل مرتب کر لیا گیا، پاک افغان وزرائے تجارت کی مشاورت پہلے ہوگی، عید کے بعد افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان حکام کے ساتھ سفارتی رابطے کے لیے محمد صادق 3 روزہ دورے پر کابل پہنچے جہاں انہوں نے افغان وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی اور پاک افغان تعلقات پر گفتگو کی، ملاقات میں تعلقات بہتر کرنے کے لیے ہائی لیول روابط پر اتفاق کیا گیا۔
افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے پر لچک دکھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت و معاشی تعاون کے فروغ کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کر لیا گیا، پاکستان اور افغانستان ترجیحی تجارت کے معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ افغان حکام کے سامنے رکھا اور پہلی بار افغان طالبان میں ٹی ٹی پی پر کچھ لچک نظر آئی ہے جبکہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کا عندیہ دیا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ہو سکتی ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔
تاہم اس موقع پر ہمیں دشمن کی چالاکیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات سبوتاژ کرنے اور پاکستان کے امن و ترقی کے سفر کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کا ہمیشہ سے ہی موقف رہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر، بالخصوص ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کرے تا کہ پاکستان میں امن قائم ہو سکے۔ طالبان حکومت کے حالیہ بیانات میں یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی تشویش کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ وعدے حقیقت میں بدلتے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے لیے ایک نئی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو نہ صرف داخلی دہشت گردی بلکہ بیرونی خطرات اور ففتھ جنریشن وار کا بھی سامنا ہے۔ بھارت ایک طویل عرصے سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے خفیہ اور سفارتی سطح پر سازشیں کرتا آیا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد گروہوں کو مالی و لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتی رہی ہے تا کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گا کہ بھارت کبھی ان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ سوویت یونین سے لے کر امریکہ تک جس نے بھی افغانستان کے خلاف جارحیت کی بھارت ہمیشہ اس کا دست راست رہا۔ اب بھی اسے موقع ملنے کی دیر ہے وہ کابل کے حکمرانوں کو ڈسنے سے گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام سے تعاون کیا ہے ان کی مدد کی ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان 50 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہا ہے، اب بھی 24 لاکھ کے قریب افغان مہاجر پاکستان میں موجود ہیں۔
پڑوسی ممالک کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ سفارت کاری، امن اور ترقی پر زور دیا ہے اور حالیہ مذاکرات اس پالیسی کے عکاس ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ سفارتی روابط مزید مستحکم کرے تا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کیے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی داخلی سیکیورٹی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت یا دہشت گردانہ کارروائیوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ پاک افغان مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت ایک خوش آئند قدم ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں استحکام لا سکتی ہے۔ تاہم ہمیں دشمن کی سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اتحاد، قومی یکجہتی اور سیکیورٹی اقدامات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تا کہ دشمن کے عزائم کو مکمل طور پر ناکام بنایا جا سکے۔ اگر ہم ان چیلنجز کا دانشمندی، حکمت عملی اور قومی یکجہتی سے سامنا کریں تو ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان ہمارا مقدر ہوگا۔ پاکستان افغانستان میں امن و ترقی کا خواہاں ہے لیکن اس کے برعکس افغانستان بھارت کی زبان بولتا ہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو چاہیے کہ وہ رہتے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی عمل متاثر نہ ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔