سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہو سکی

گزشتہ دو سماعتوں میں 5 درخواست گزاروں کے وکلا دلائل مکمل کرچکے ہیں
0
68
supreme court

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہو سکی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ
باقی وکلا کو کل دن ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا، ن لیگ کے وکیل صلاح الدین کے دلائل جاری ہیں،

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی ںہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے، رولز میں ردوبدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولزبنانے کیلئے با اختیار ہے، اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کیلئے پابند کرنے کا مطلب موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذ ابھی پکڑا دیئے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ، ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا توحوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال ہے کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کا اختیار کہاں اور کس کو دیا گیا ہے، آئین کے مطابق رولز بنانے کا اختیارسپریم کورٹ کے پاس ہے، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار آئین کے مطابق ہےجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز آئین کے ہی مطابق ہوسکتی ہے سب کو معلوم ہے،وکیل عابد زبیری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ حدود واضح کرتے ہیں جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں، اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، آئین سازوں نے اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تووہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اورسپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ کو نہیں کرنی چاہئے، کوئی غلطی ہوئی تو ازالے کی سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے، پاکستان میں 184 تین کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ ہم آپ کی رائے سننا چاہتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی، ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر پابندی کیوں نہیں جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کیلئے بااختیار ہے۔ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنالے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پاکستان میں184تھری کا استعمال کیسے ہوا، کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے، آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا ؟یا تو کہہ دیتے کہ 184تھری میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا،اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، اس سے پہلےکہ دنیا انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، ایک چیف جسٹس نےغلطی کی تو پارلیمنٹ درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کرے تو کیا پارلیمنٹ درست کر سکتی ہے آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184تھری پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کاغلط استعمال ہوتا رہا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184 تھری کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے توغلط ہے۔

وکیل عابد زبیری نے موقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کااستعمال کیسے ہوا،کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو جائے تو کیا اپیل نہیں ہونی چاہیے، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔

غلط استعمال ہوا یا صحیح دیکھنا ہے یہ اختیار کس کو ہے، عابد زبیری جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کے پاس اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیار بڑھا سکتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال اچھے یا برے کا نہیں سوال قانون بنانے کی اہلیت کا ہے،آپ بتائیے کس اکا اختیار ہے سپریم کورٹ بارے قانون بنانے کا؟ وکیل عابد زبیر نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے یہ اختیار پارلیمان کا ہے یا نہیں ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انصاف کی فراہمی متاثر ہو رہی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہونے پر کیا قانون سازی ہو سکتی ہے یا نہیں، چیف جسٹس اس مقدمہ کو سماعت کیلئے مقرر کرسکتے تو دوسرے جبری گمشدگی جیسے مقدمات کیوں نہیں، آپ نے ابھی درخواست کے قابل سماعت ہونے کی رکاوٹ کو بھی عبور نہیں کیا، بتائیں کہ اس قانون سازی سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے،

چیف جسٹس نے کہا کہ 184(3) میں ہم یہ مقدمہ کیسے سن سکتے ہیں ؟ آپ کہہ رہے ہیں نہ ہم اپنے دائرہ اختیار بڑھا سکتے ہیں نہ پارلیمان،ہمیں آپ کہہ رہے ہیں کہ 184(3) میں عدالت اپنا دائرہ اختیار بڑھا دے،جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اس ایکٹ کو دیکھنے کیلئے پہلے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھنا ہے-

عابد زبیری نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ کیا پارلیمان کا اس قانون کو بنانے کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کو بھی ہم آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار نا پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نا سپریم کورٹ،پھر یہ بتائیں ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے، اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست آ سکتی ہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بلکل آ سکتی ہے-

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے اصل دائرہ اختیار 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184/3 کا استعمال کیسے ہوا ،کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی ذرا سی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی-

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی،ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا-

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے،امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں، پارلیمان قانون سازی کرے تو آپکو اعتراض ہے، کوئی فرد واحد آکر آئین میں اپنی مرضی سے ترمیم کردے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس ایکٹ میں آئین کے کونسے آرٹیکل کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کر کے آئین میں ترمیم کا دروازہ کھولا جا رہا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں سادہ اکثریت کے زریعے ترمیم کر کے نیا راستہ کھولا جارہا ہے،

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل کی باتیں نا کریں آج کی صورتحال بتائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184/3 کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نا ہوتی،آپ نا مدعی ہیں نا مدعا علیہ توپھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا دیا گیا ہے، اپیل کے اختیار سے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟

چیف جسٹس نےعابد زبیری سے مکالمے میں کہا کہ آپکے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، وقفے کے بعد اگلے درخواست گزار کو 20 منٹ دیں گے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے-

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی نے 188 کے تحت نظر ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا، ایکٹ کے تحت نظر ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟

عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا،وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو درخواستگزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل عدنان خان نے مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز میں ردوبدل کا اختیار نہیں دیا، چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بے کار کر دیا، سپریم کورٹ2 بنیادوں پرکھڑی ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز،سپریم کورٹ کی انتظامی معاملات میں چیف جسٹس ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں-

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیئے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دئیے گئے وکیل عدنان خان نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر مشاورت بنچز بنا سکتا ہےپارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں-

وکیل عدنان خان نے کہا کہ آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کےسوا کہاں تنہا اختیارا ت دیے گئے-

وکیل عدنان خان نے کہ کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بنچز بنا سکتا ہے، چیف جسٹس اور دیگر ججز میں فرق انتظامی اختیارات ہیں، مجھے اس قانون سے مسئلہ نہیں مگر طریقہ کار سے مسئلہ ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ اس قانون سے آپکا کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، وکیل عدنان خان نے کہا کہ اس ایکٹ سے انصاف کا حق متاثر ہوگا ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں طریقہ کار دے کرسپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کیلئے اپنا دماغ استعمال کرتے تھے، میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا، کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی وکیل عدنان خان نے کہ مشاورت اچھی چیز ہے، چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے، قانون کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہوگا، کوئی حوالہ دے دیجیے ،وکیل عدنان خان نے جواب دیا کہ میں ریفرنس جمع کرا دوں گا جس کے بعد وکیل عدنان خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ کے دلائل شروع

وکیل شاہد رانا نے دلائل شروع کرتے ہی سوال اٹھایا کہ اگر 15ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی چیف جسٹس نے جواب دیا کہ 15 ججزفیصلہ کریں گے تو نہیں ہوگی اپیل، وکیل شاہد رانا نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا، کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا تو وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھا دیا، اور مؤقف پیش کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا نا انصافی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کاتمام ججزکےدستخط کےساتھ حکمنامہ جاری ہوا،حکمنامہ میں درج ہےکہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکےوکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میرے ساتھی آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں جس پر وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہو گئے-

مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم کے دلائل

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ مجھ سے پہلے مسلم لیگ ق کے وکیل دلائل دینا چاہتے ہیں مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم نے دلائل شروع کردیئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے آپ اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے کہا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں،جس پر وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتی ہےجسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ ”سبجیکٹ ٹو لاء“ لکھ کر پارلیمنٹ کو اختیار دے دیا گیا ہو، آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

آدھے گھنٹےکے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل زاہد ابرہیم سے کہا کہ آپ آرٹیکل191سے اینٹری 55 کا تعلق سمجھا دیں، جسٹس منیب اختر نےریمارکس دیئےکہ ایکٹ کےذریعے آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی،کیا آئین پار لیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل191 کے تحت قانون سازی کا اختیار بہت وسیع ہونا چاہئے، آپ 1956 کا آئین پڑھیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ آپ دلائل سے متفق ہوں جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا۔

وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ درخواست گزاروں سے سوال کیا گیا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوشش کی سپریم کورٹ کےکام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا جائے، عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے استفسار کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر اف روسٹر کون ہےِ؟ جس پر زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ ہے، رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے، مقدمات کا مقرر کرنے چیف جسٹس نے رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو قانون ہے آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔

وکیل صلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے بہت آرا آئی ہیں، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ اپ اپنے دلائل شخصیت کو مدنظر رکھ کر دے رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو آرا دی گئی وہ ان کی آرا ہو ں گی، کسی کا ایک مؤقف ہوتا ہے دوسرے کا دوسرا مؤقف، بہتر ہو گا کہ پارلیمان کے اختیار پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو سننا چاہتا ہوں اپنے دلائل دیں۔

کیس کی کارروائی آج بھی سپریم کورٹ سے سرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھائی جا رہی ہے،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ دو سماعتوں میں 5 درخواست گزاروں کے وکلا دلائل مکمل کرچکے ہیں آج ہونے والی سماعت میں دیگردرخواست گزاروں کے وکلاء، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن اوق کے وکلاء دلائل دیں گے اس سے قبل تمام فریقین سپریم کورٹ مین اپنے تحریری جوابات اور دلائل جمع کرواچکے ہیں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر آج اس کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی، چیف جسٹس نے گزشتہ سماعت میں عندیہ دیا تھا کہ 9 اکتوبر کو تیسری سماعت میں یہ کیس مکمل کرلیا جائے گا۔

کیس کی سماعت کرنے والے فل کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان،جسٹس سید مظاہرعلی نقوی،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

Leave a reply