کالے بھونڈوں اور چھپکلیوں کو بھگانے کےلیے سپرے کر رہا تھا صبح صبح کھڑکی کے پاس ، کہ دفعتاً ٹڈا سا نظر آیا۔ سوچا صحن میں گھاس ہے تو آ گیا ہو گا مگر جب دھیان سے دیکھا تو یہ praying mantis تھا ۔ فوراً سپرے روکا۔ شکر ہے ابھی اس پہ سپرے نہیں ہوا تھا۔ ہتھیلی آگے کی تو یہ دفاعی پوزیشن میں آ گیا ۔ دوستانہ انداز میں ٹچ کیا اور ہتھیلی آگے کی تو باقی دنیا کی طرح اسے بھی ہماری شرافت پہ یقین آ گیا اور ہتھیلی پہ بیٹھ گیا۔ مقصد یہ تھا کہ ہوا میں موجود سپرے کے ذرات سے اسے نقصان نہ پہنچے۔
اسے گلاب کے پودے پہ بٹھایا اور واپس آیا تو دیکھا برآمدے میں پر پھیلائے ،نہایت غصیلے انداز میں ایک اور مینٹس میرا منتظر تھا۔ اپنے ساتھی کو نہ پا کر سخت برہم تھا اور غالباً مجھ پہ شک کر رہا تھا۔ اسے چمکارا ۔ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو آہستہ آہستہ وہ بھی پاس آ گیا۔ اسے بھی وہیں اس کی بیگم پاس گلاب پہ چھوڑا کہ چل کاکا عیاشی کر۔ گلاب کے مخملیں بستر پہ ۔ مگر دونوں شاید آپس میں ناراض تھے۔ منہ بنائے دور دور رہے ذرا سے۔
سکول کا ٹائم بھی قریب ہی تھا ۔ جانے لگا تو خیال آیا کہ ذرا جوڑے کے "حالات ” بھی دیکھتے جائیں ۔ اگرچہ پرائیویٹ معاملات میں دخل دینا نامناسب بات ہے مگر یہ ہم پاکستانیوں کا پرانا شیوہ۔ آپ نے غلام عباس کا افسانہ ” اوور کوٹ ” تو پڑھ رکھا ہو گا۔ اوور کوٹ والا نوجوان بھرے بازار ، اردگرد کےلوگوں ، اشیاء وغیرہ سے بےنیاز نظر آتا اور کسی پہ نگاہ ِ غلط انداز نہیں ڈالتا مگر اک موٹے پیندے اور لمبے بالوں والی لڑکی اور ساتھی لڑکے کی گفتگو سننا شروع کر دیتا ۔ اور پھر ان کے پیچھے یوں تیزی سے جاتا کہ ٹرک کا پتہ بھی نہیں چلتا اور مر جاتا۔ ویسے نصابی کتب میں یہ مکالمہ نہیں ہے۔ یوں بھی افسانوں کا ختنہ کرنے کے بعد ہی انہیں شامل نصاب کیا جاتا۔ احمد ندیم قاسمی کا فسانہ دیکھ لیں مولوی ابل والا۔
بات دور نکل گئی۔ تو میں پھر قریب پہنچا ۔ دیکھا کہ ایک ہی موجود ۔ تلاش کیا مگر نہ ملا ۔ کمرے میں آ کے کپڑے تبدیل کرنے لگا تو حضرت بائیں کندھے پہ کراماً کاتبین کی طرح موجود۔ لو جی ۔۔۔۔ایہہ تے سچ مچ یاری دے چکراں اچ اے۔ واپس چھوڑا۔ دونوں نمونوں کو ایک پھول پہ بٹھایا بلکہ ان کی پپیاں جپھیاں بھی کروائیں زبردستی ۔ کچھ دیر بعد خدا حافظ کہنے گیا انہیں تو اب دونوں الگ الگ پھولوں پہ تھے۔ ارینج میرج ٹائپ جوڑے کی طرح۔ سخت مایوسی ہوئی۔
پرئنگ مینٹس کا تعلق حشرات کے mantodea آرڈر سے ہے۔ اب تک اس کے 30 خاندان اور2400 انواع دریافت ہو چکیں ۔ خوراک کے معاملے میں گوشت خور ہیں کٹّر قسم کے ۔ نان ویجیٹیرین ۔ تمام حشرات میں ان کی نظر سب سے تیز ہوتی۔ ماہر شکاری اور نہایت ہمت والے۔ کبھی مقابل سے گھبراتے نہیں ۔ چھوٹے مینڈک ، چھوٹی چھپکلیاں، چھوٹے سانپ ، کیڑے مکوڑے وغیرہ کا شکار کرتے اور منٹوں میں کتر ڈالتے انہیں۔ اگلے بازوؤں پہ کانٹے نما سی چیز ہوتی سخت سی۔ شکار کو جکڑ لیتے۔ زندہ جاندار کھاتے ، مردہ نہیں ۔ حشرات میں یہ واحد ہیں جو اپنا سر انسان انسان کی طرح دائیں بائیں گھما سکتے۔ اوسط عمر ایک سال ہوتی۔
پرندے اور چھپکلیاں ان کا شکار کرتیں ۔ اور بعض اقسام کی بھڑیں بھی ۔ مقابلہ خوب کرتے۔ یوٹیوب پہ سرچ کر سکتے ۔ تکونی سر اور دعا کی طرح اٹھے ہاتھ ہوتے ان کے ۔ یہ کسی چیز کو کاٹ بھی سکتے اور چبا بھی سکتے۔
ایک اور خاص بات ، کہ اگر مادہ کسی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہو جائے تو اپنے مجازی خدا کا سر کھا جاتی ہے۔ یہ عادت ویسے تمام ماداؤں میں مشترکہ ہے ۔۔۔سر کھانے کی ۔ نر ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔