مقبوضہ جموں وکشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے دنیا اُسے دل کی آنکھ سے دیکھے۔صدر آزاد جموں وکشمیر

0
67

آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے دنیا اُسے دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے کیونکہ وہاں رونما ہونے والے واقعات دلخراش ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل بھی ہیں۔ مقبوضہ ریاست میں بھارت کے اقدامات انسانی اقدار، تہذیب، بین الاقوامی انسانی قوانین اور ورلڈ آرڈر کو پاؤں کے نیچے روندنے کے مترادف ہیں جنہیں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور اس کی یہ خاموشی بھارت کو انسانیت کے خلاف مزید جرائم کے ارتکاب کا حوصلہ دے رہی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم جسٹس فار آل کے زیر اہتمام ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر کا پورا علاقہ ایک کھلا جیل اور پوری آبادی قیدی بنی ہوئی ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان سمیت وہ مغربی اقوام جو انسانی قانون اور انسانی حقوق کی محافظ کہلاتی ہیں پُر اسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ویبی نار سے امریکہ میں مقیم ممتاز سکالر ڈاکٹر عبدالمالک مجاہد، مقبوضہ کشمیر سے ڈاکٹر مرزا صاحب بیگ، برطانیہ سے مزمل ایوب ٹھوکر، شائستہ صفی، مقبوضہ کشمیر سے شاہانہ بٹ، امریکہ سے سردار ذوالفقار خان، ڈاکٹر اطہر ضیا، پاکستان سے سید فیض نقشبندی، احمد بن قاسم، امریکہ سے امام عبدالجبار، حنا زبیری، محمد عاطف عباسی اور بابر ڈار نے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد انسانیت، انسانی وقار اور آفاقی انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہے اور کشمیریوں کو اگر اس جدوجہد میں ناکامی ہوئی تو یہ پوری انسانیت کی ناکامی ہوی گی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے اکتوبر 1947ء میں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں قتل وغارت گری کا جو سلسلہ شروع کیا وہ 73سال گزر جانے کے بعد آج بھی جاری ہے اور ان سات دہائیوں میں بھارت نے آزادی، حق خود ارادیت اور انسانی حقوق مانگنے والے پانچ لاکھ انسانوں کو قتل کر دیا اور آج بھی مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں بھارتی فوج محاصرے اور تلاشی کے نام پر نوجوانوں کو چُن چُن کر قتل کر رہی ہے تاکہ آزادی، حق خودارادیت اور انسانی حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دیا جائے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ سال پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر پر چڑھائی کر کے ریاست پر دوبارہ قبضہ کیا، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور ان دو حصوں کو دہلی کے ماتحت کر کے یہ پیغام دیا کہ ریاست کے نظم ونسق اور اس کے مستقبل کو طے کرنے میں وہاں کے عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سال اپریل میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران رات کی تاریکی میں بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروا کر کشمیریوں کے روزگار، ملازمتوں، کاروبار کے حقوق چھین لئے اور اُن کی زمین پر بھارتی شہریوں کو بسانے کا ایک گھناؤنا منصوبہ شروع کیا تاکہ کشمیریوں کو اُن کی اپنی سرزمین میں بے زمین کر دیا جائے اور اُن کو اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ بھارت کے مقبوضہ ریاست کے اندر یہ تمام اقدامات نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں جن سے سلامتی کونسل کے ارکان کا نظریں چرانا، اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے کے مترادف ہے۔ صدر آزادکشمیر نے ویبی نار کے شرکاء پر زور دیا کہ وہ پانچ اگست کے بعد بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے لئے پیدا ہونے والے نئے مواقع سے استفادہ کریں اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی دس ملین کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی کے اثر ورسوخ سے فائدہ اٹھا کر مختلف ممالک کی پارلیمان کے ارکان، اعلیٰ حکومت عہدیداروں، میڈیا اور سول سوسائٹی تک رسائی حاصل کر کے کشمیریوں کی آواز اُن تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بظاہر کشمیر کی صورتحال سے لا تعلق نظر آتی ہے لیکن ہمیں اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم کے دروازے پر دستک دینے کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا اور اس بات کا اہتمام بھی کرنا ہو گا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیر کے حوالے سے جاری انفرادی کوششوں کو کسی اجتماعی فورم کے تابع کیا جائے تاکہ ان کوششوں کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔

Leave a reply