یومِ آزادیِ صحافت: اظہارِ رائے کا عالمی دن، ایک جامع رپورٹ
(شاہد ریاض، بیورو چیف باغی ٹی وی سیالکوٹ،احسان اللہ ایاز، نامہ نگار باغی ٹی وی ننکانہ صاحب،مدثر رتو، سٹی رپورٹر باغی ٹی وی سیالکوٹ،منصور بلوچ، نامہ نگار باغی ٹی وی تنگوانی)
ہر سال 3 مئی کو دنیا بھر میں یومِ آزادیِ صحافت منایا جاتا ہے، جو نہ صرف صحافت کی آزادی اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ صحافیوں کے تحفظ اور آزاد میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزاد اور غیر جانب دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ صحافت صرف خبر رسانی کا ذریعہ نہیں، بلکہ عوام کے حقِ جاننے کو یقینی بنانے، بدعنوانی کو بے نقاب کرنے، ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے اور طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کا ایک طاقتور ہتھیار ہے۔
صحافت کی اہمیت اور اس کا کردار
شاہد ریاض، بیورو چیف باغی ٹی وی سیالکوٹ، کے مطابق صحافی معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ وہ اندھیروں میں روشنی کی شمع جلاتے ہیں اور خاموشوں کی آواز بنتے ہیں۔ آزاد صحافت عوام کو سچ تک رسائی دیتی ہے، جو ایک جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ جب صحافی آزاد ہوتے ہیں، تو وہ حکومتی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں، کرپشن کو عیاں کرتے ہیں اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک، بشمول پاکستان، میں صحافیوں کو سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ کہیں انہیں قید کیا جاتا ہے، کہیں ہراساں کیا جاتا ہے، اور کہیں ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ میڈیا ہاؤسز پر حملے، رپورٹرز کا اغوا، اور جھوٹے مقدمات قائم کرنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں کئی صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل ہوئے، لیکن انصاف کا حصول ایک خواب ہی رہا۔ اکثر مقدمات میں تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں، اور مجرم آزاد گھومتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف صحافت کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ہے، کیونکہ جب سچ کو دبایا جاتا ہے تو جھوٹ اور پروپیگنڈا کو پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔
صحافی تنظیموں کی خاموشی، ایک المیہ
احسان اللہ ایاز، نامہ نگار باغی ٹی وی ننکانہ صاحب، نے صحافی تنظیموں اور پریس کلبوں کی خاموشی پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب صحافیوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے، یا جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں اکثر حکومتی دباؤ، سیاسی مفادات یا ذاتی تعلقات کے باعث خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ جب چینل بند کیے جاتے ہیں یا صحافیوں کی آوازیں دبائی جاتی ہیں، تو ان تنظیموں کا غیر فعال رویہ آزادیِ صحافت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا ہے۔
ایاز نے زور دیا کہ صحافت صرف قلم، مائیک اور کیمرے کا نام نہیں، بلکہ ایک عہد اور جدوجہد ہے۔ اگر اس جدوجہد کی علمبردار تنظیمیں خود مصلحت کا شکار ہو جائیں، تو نہ صرف صحافت کمزور ہوتی ہے بلکہ معاشرہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں یا اخبارات اور چینلز بند کیے جاتے ہیں، تو یہ تنظیمیں کہاں ہوتی ہیں؟ کیا ان کا کام صرف بیانات جاری کرنا اور رسمی تقریبات منعقد کرنا ہی رہ گیا ہے؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صحافی برادری اور ان کی تنظیمیں اپنا حقیقی کردار ادا کریں، ورنہ تاریخ نہ صرف ظالم حکمرانوں کو بلکہ خاموش تماشائیوں کو بھی معاف نہیں کرے گی۔
قلم کی حرمت اور صحافت کی زنجیریں
مدثر رتو، سٹی رپورٹر باغی ٹی وی سیالکوٹ، نے اپنی تحریر میں کہا کہ یومِ آزادیِ صحافت صرف صحافیوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس فرد کے لیے باعثِ فکر ہے جو سچ جاننے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صحافت دباؤ، سنسرشپ اور دھمکیوں کی زد میں ہے۔ صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے جاتے ہیں، لاپتہ ہو جاتے ہیں، یا جھوٹی ایف آئی آرز کا نشانہ بنتے ہیں۔ قلم تھامنے والے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑ دیے جاتے ہیں، اور سچ بولنے والے لب خاموش کر دیے جاتے ہیں۔
رتو نے زور دیا کہ آزادیِ صحافت کسی ایک طبقے کا مسئلہ نہیں۔ جب صحافت آزاد نہ ہو، تو قوم اندھیرے میں بھٹکتی ہے، کرپشن اور انسانی حقوق کی پامالی بڑھتی ہے، کیونکہ سوال اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کریں، جہاں وہ بلا خوف و خطر سچ بول سکیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت ایک مشن ہے، جو سچائی، دیانتداری اور عوامی مفاد کے لیے وقف ہے۔ اس دن ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ قلم کی حرمت کے لیے آواز بلند کریں گے اور سچ کی تلاش میں نکلنے والوں کا ساتھ دیں گے۔
صحافت کا بدلتا کردار اور معاشرتی اثرات
منصور بلوچ،نامہ نگار تنگوانی نے صحافت کے بدلتے کردار پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں صحافت کو ملک کا چوتھا ستون سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ ایک مطلب پرست کاروبار بن گئی ہے۔ انہوں نے صحافت کو تین اقسام میں تقسیم کیا:
1. ے باک صحافی: یہ وہ صحافی ہیں جو خدا سے ڈر کر شفاف صحافت کرتے ہیں اور مظلوموں کی آواز ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔ سندھ میں ایسی صحافت کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے، جہاں سرداری اور وڈیرہ نظام صحافیوں کے قلم کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بے باک صحافی اپنی جان کی پروا کیے بغیر سچ بولتے ہیں۔ بلوچ نے سندھ کے شہید صحافیوں شاہد سومرو، جان محمد مہر، نصراللہ گڈانی اور عزیز میمن کو خراجِ تحسین پیش کیا، جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان صحافیوں نے قلم کی غداری نہیں کی اور اپنی شکست کو شہادت میں بدل دیا۔
2. عطائی صحافی: یہ صحافی نہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں نہ ان کے پاس ضمیر ہوتا ہے۔ وہ پیسوں کے لیے صحافت کرتے ہیں، ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں اور اپنا کاروبار چمکانے کے لیے گری ہوئی صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسی صحافت نے پیشے کو بدنام کیا ہے، اور اس کے باعث اصل صحافی خود کو صحافی کہلوانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
3. مطلبی صحافی: یہ زرد صحافت کے علمبردار ہیں، جو بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ ویب سائٹس، چینلز اور اخبارات کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، جس سے نہ صرف صحافت بدنام ہوتی ہے بلکہ بے باک صحافیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صحافی اداروں کو ماہانہ فیس ادا کر کے پریس کارڈ حاصل کرتے ہیں اور شہروں میں بلیک میلنگ کا دھندہ چلاتے ہیں۔
منصور بلوچ نے کہا کہ ایسی گراوٹ نے صحافت کے اصل مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ اچھے صحافیوں نے عوام کی خدمت کے لیے اپنے چینلز اور ویب سائٹس شروع کیں، لیکن مطلبی صحافیوں نے انہیں بھی تباہ کر دیا۔
یومِ آزادیِ صحافت کا پیغام
یومِ آزادیِ صحافت کا پیغام واضح ہے کہ حقِ اظہار کو دبانا عوام سے ان کا بنیادی حق چھیننے کے مترادف ہے۔ آزاد میڈیا سچ، شفافیت اور انصاف کی بنیاد رکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے کہیں زیادہ گہری اور دیرپا ہوتی ہے۔ صحافت کی آزادی دراصل عوام کی آنکھ، کان اور زبان کی آزادی ہے۔
حکومتوں، اداروں اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور انہیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت دیں۔ اس دن کو صرف رسمی تقریبات تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ سچ، حق اور آزادی کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اگر آج صحافی اپنی آواز کے لیے نہ اٹھے، تو کل کوئی بھی نہیں اٹھے گا۔
آئیں، اس یومِ آزادیِ صحافت پر عہد کریں کہ ہم سچ کی لڑائی میں صحافیوں کا ساتھ دیں گے، قلم کی حرمت کو برقرار رکھیں گے، اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں حصہ لیں گے جہاں سچ بولنا جرم نہ ہو۔ جب تک صحافت آزاد ہے، امید زندہ ہے۔