برطانیہ نے ایک نئے قانون کے تحت منتخب نمائندوں، ججوں اور مقامی کونسلروں کے گھروں کے باہر احتجاج کو جرم قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام سیاست میں بڑھتی ہوئی ہراسانی اور دھمکیوں کو روکنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ نئے ’کرائم اینڈ پولیسنگ بل‘ کے تحت پولیس کو ایسے مظاہروں کو روکنے کا اختیار حاصل ہوگا جو کسی عوامی عہدیدار کو اس کے سرکاری فرائض یا ذاتی زندگی میں متاثر کرنے کے مقصد سے کیے جائیں۔قانون کی خلاف ورزی پر 6 ماہ تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔سیکیورٹی وزیر ڈین جاروس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’برطانوی سیاست میں حصہ لینے والوں کو جس سطح کی بدسلوکی کا سامنا ہے، وہ چونکا دینے والی ہے، یہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’لوگوں کو سیاست میں حصہ لیتے وقت اپنے یا اپنے خاندان کے تحفظ کے حوالے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ایک پارلیمانی سروے کے مطابق 96 فیصد ارکانِ پارلیمان نے ہراسانی یا دھمکیوں کا سامنا کیا، جبکہ انتخابی نگران ادارے کے مطابق گزشتہ عام انتخابات میں نصف سے زائد امیدواروں کو بھی اسی نوعیت کے خطرات لاحق رہے۔
گزشتہ برس وزیراعظم کیر اسٹارمر کے گھر کے باہر فلسطین نواز مظاہرین نے بچوں کے جوتے اور ایک بینر چھوڑا تھا، جس میں اسرائیل پر اسلحہ پابندی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اسی طرح 2023 میں سابق وزیراعظم رِشی سونک کے گھروں کے باہر بھی ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔حکومت کے مطابق نئے قانون میں احتجاج سے متعلق مزید سخت اقدامات شامل ہوں گے، جن میں جنگی یادگاروں پر چڑھنے، آتش بازی یا فلیئرز کے استعمال اور چہرہ چھپانے کے لیے ماسک پہننے پر پابندی شامل ہے۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد جمہوری اداروں کے تحفظ اور عوامی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، تاہم ناقدین کے مطابق اس قانون سے اظہارِ رائے اور احتجاج کے حق پر مزید قدغنیں لگ سکتی ہیں۔نیا ’کرائم اینڈ پولیسنگ بل‘ اس وقت برطانوی پارلیمان سے منظوری کے مراحل میں ہے، اور توقع ہے کہ اسے آئندہ سال شاہی توثیق حاصل ہو جائے گی
قومی اسمبلی اجلاس کا 19 نکاتی ایجنڈا جاری، وزرا سوالات کے جوابات دیں گے
پاکستان کی سنسنی خیز مقابلے میں جنوبی افریقہ کو 2 وکٹوں سے شکست
بھارت: مسافر ٹرین اور مال گاڑی میں تصادم، 8 افراد ہلاک








