سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز سینیٹر خالدہ عتیب کی زیرِ صدارت ہوا، جس میں پاکستان اسٹیل ملز کو درپیش سنگین مالی و انتظامی بحران، بڑے پیمانے پر ہونے والی چوریوں اور آپریشنل مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز میں چوری سے متعلق درج تمام ایف آئی آرز کا جائزہ لینے کی ہدایت دی اور اس بات پر زور دیا کہ چوری شدہ مواد، جن میں تاریں اور دیگر قیمتی اجزاء شامل ہیں، کے باعث ہونے والے مالی نقصان کا درست تخمینہ لگایا جائے۔کمیٹی نے انکشاف کیا کہ 10 ارب روپے مالیت کی چوری کے باوجود اب تک صرف ایک معطلی عمل میں لائی گئی ہے، جو شفاف احتساب کے فقدان کی نشاندہی کرتی ہے۔سینیٹر خالدہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا "یہ چوری کسی ایک شخص کا کام نہیں بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کی کارستانی ہے۔ ضروری ہے کہ اس زنجیر میں ملوث ہر فرد کی نشاندہی کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔”

سی ای او پاکستان اسٹیل ملز نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فوجداری کارروائیاں اور محکمانہ تحقیقات دونوں جاری ہیں، اور قصورواروں کے خلاف قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔سی ای او نے مزید بتایا کہ بجلی اور پانی کی قلت ملز کے لیے مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہے، تاہم مشکلات کے باوجود ادارہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں خود اپنے وسائل سے ادا کر رہا ہے۔اجلاس کو بریفنگ دی گئی کہ پاکستان اسٹیل ملز کے پاس وسیع رقبے پر مشتمل زمین موجود ہے، جس کا بڑا حصہ صنعتی نوعیت کا ہے۔ تاہم زمین پر قبضے سے متعلق درج ایف آئی آرز میں متاثرہ رقبے کی تفصیلات شامل نہیں، جس کی عدم وضاحت قانونی پیچیدگیوں کا باعث بن رہی ہے۔کمیٹی نے اس امر پر زور دیا کہ اسٹیل ملز کے حقائق پر مبنی جامع تحقیق کے لیے واضح شرائطِ حوالہ مرتب کی جائیں تاکہ تحقیقات مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔سینیٹر خالدہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ہر بار جب کوئی سیکریٹری اسٹیل ملز کے مسائل میں گہرائی سے دلچسپی لیتا ہے تو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے، جو مسلسل نگرانی اور اصلاحی عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں محنت کشوں کی رجسٹرڈ یونینز کے نمائندوں کو طلب کیا جائے گا تاکہ مزدوروں کے مسائل اور ان کی تجاویز براہِ راست سنی جا سکیں۔ اس کے علاوہ واٹر اینڈ سیوریج کمپنی کے حکام کو بھی طلب کیا جائے گا تاکہ علاقے میں پانی کی قلت کے مسئلے پر عملی حل پیش کیا جا سکے۔

Shares: