پشاور سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب احتجاج کے لیے روانہ ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا قافلہ، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں حضرو انٹرچینج پہنچ گیا۔پشاور سے علی امین گنڈا پور کارواں کی قیادت کر رہے تھے تاہم اب بشریٰ بی بی نے قیادت سنبھال لی ہے اور کہا ہے کہ اب احتجاجی قافلے کی قیادت میں کروں گی،
پی ٹی آئی کی کال پر آج لوگوں کی بڑی تعداد باہر نہیں نکل سکی اسلئے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے فیصلہ کیا کہ وہ خود باہر نکلیں گی اسطرح شاید لوگ نکل آئیں،علاوہ ازیں بشریٰ بی بی کو علی امین گنڈاپور پر اعتبارنہیں ہےاسلئے وہ خود اسے مانیٹر کرنے آرہی ہیں۔کیونکہ گزشتہ احتجاج میں علی امین گنڈا پور اسلام آباد پہنچ کر غائب ہو گئے تھے،بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کے مابین روانگی سے قبل لڑائی ہوئی تھی، بشریٰ بی بی نے کارواں کے شرکا سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ جلدی چلیں خان کو لئے بغیر واپس نہیں آیا،
احتجاجی قافلے کے دوران پی ٹی آئی کارکنان نے علی امین گنڈا پور سے مطالبہ کیا کہ ڈی چوک کی بجائے اڈیالہ جائیں گے، جس پر علی امین گنڈا پور نے کہا پارٹی جو فیصلہ کرے گی اس کے مطابق عمل ہو گا،پارٹی حتمی فیصلہ کرے گی،علی امین گنڈا پور نے اڈیالہ جانے کے لئے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے، دوسری جانب اڈیالہ جیل کی سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے،
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر حکومت نے دارالحکومت جانے والے اکثر راستے بند کر دیے ہیں۔ متعدد راستوں پر کنٹینر لگا دیے گئے ہیں تاکہ مظاہرین کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ چھبیس نمبر چُنگی کنٹینر لگا کر مکمل سیل کر دی گئی، اور وہاں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔سری نگر ہائی وے، زیرو پوائنٹ کے مقام پر بند کر دی گئی ہے۔ایکسپریس وے، کھنہ پل کے دونوں طرف سے بند کر دی گئی۔ائیرپورٹ جانے کا راستہ کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔فیض آباد سے اسلام آباد یہ راستہ بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
راولپنڈی پولیس نے فیض آباد اور آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کارروائی کی۔ لاٹھی چارج کے بعد تقریباً 60 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، وہاں 100 سے 150 کارکن موجود تھے جنہیں منشتر کر دیا گیا۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے 490 کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ 100 کارکن لاپتہ ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری یہ تنازع سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا رہا ہے۔حکومت نے دارالحکومت کو بند کر کے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس اقدام سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے حکومت پر تنقید بڑھ سکتی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت اس احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کریک ڈاؤن اور راستوں کی بندش عوامی حمایت کو کم کر سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ جب تک بیرونی قافلے اسلام آباد نہیں پہنچتے ہم احتیاط کریں گے اور ورکرز اپنی انرجی بچا کر رکھیں گے ہم سٹریٹجی کے تحت چلنا ہے،پی ٹی آئی رہنما شہر یار آفریدی کا کہنا ہے کہ ہم واپسی کے تمام راستے بند کرکے آئے ہیں اب عمران خان کی رہائی کے بغیر کسی صورت واپسی نہیں ہوگی، پوری قوم کی للکار ہے کہ عمران خان کو رہا کرو، لوگ بدترین ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں،پی ٹی آئی رہنما مومنہ باسط کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کی جانب سے ٹیکسلا کے مقام پر ہزارہ کے قافلے پر شدید شیلنگ ہوئی۔ ہم وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے قافلے تک جلد پہنچ جائینگے۔ عوام نکلے عمران خان کے لیے ۔
احتجاج کی کال پر وفاقی دارالحکومت کے داخلی اور خارجی راستے سیل ہیں اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے،وزیر داخلہ محسن نقوی نے ڈی چوک کا دورہ کیا اور پولیس اہلکاروں کو شاباش دی، اسلام آباد میں احتجاج کے دوران چھڑپوں میں متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہو ئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے.
پی ٹی آئی احتجاج، بشریٰ تو آ گئیں، علیمہ خان منظر سے غائب
اسلام آباد، مظاہرین پتھراؤ سے متعدد پولیس اہلکار زخمی
24 نومبردن ختم،لاہورسے نہ قافلہ نکلا نہ کوئی بڑا مظاہرہ
سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والوں کو سزا مل جاتی تو نومئی نہ ہوتا، مبشرلقمان
بشریٰ کو خون چاہیے،مولانا کو 3 میسج کس نے بھجوائے؟
بشریٰ کا خطاب،عمران خان تو”وڑ” گیا. مبشر لقمان
خود گرفتاریاں دے رہے،پی ٹی آئی قیادت کہیں نظر نہیں آرہی،مصدق ملک
گاڑیوں میں بیٹھیں،تیز چلیں، خان کو لئے بغیر واپس نہیں آنا، بشریٰ بی بی کا شرکا سے خطاب