پی ٹی آئی اور عمران خان کے دور حکومت میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) کی واپسی کی راہ کیسے ہموار کی گئی؟ حقائق کیا کہتے ہیں؟
پاکستان دہشت گردی کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری جنگ میں بے شمار قربانیاں دے چکا ہے۔ پاک فوج نے متعدد آپریشنز کے بعد اپنے خون سے وطن کی سرزمین کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کیا اور امن و امان کی بحالی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ تاہم، پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کے دوران کیے گئے چند فیصلے نہ صرف ان قربانیوں کے منافی تھے بلکہ ان سے دہشت گردوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے اور فتنہ الخوارج کے عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد سے پی ٹی آئی کے پراپیگنڈہ اکاؤنٹس نے یہ بیانیہ پھیلانا شروع کیا کہ فتنہ الخوارج کے ساتھ مذاکرات سیکورٹی فورسز کے کہنے پر ہوئے جو صریحا بے بنیاد بات ہے۔ سیکیورٹی فورسز کا کام لڑنا ہے سیاسی مفادات کی خاطر دہشتگردوں کو واپس لانے، آباد کرنے کا منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت کا تھا جو اس وقت صوبے اور وفاق دونوں میں بر سر اقتدار تھی۔ علاوہ ازیں، عمران خان اور ان کی جماعت نے کئی مواقع پر دہشت گردوں کے ساتھ "سیٹلمنٹ” کی حمایت کی۔ 2004 سے ہی عمران خان نے طالبان کے لیے نرم گوشہ ظاہر کیا، جس کی بنیاد پر انہیں "طالبان خان” کہا جانے لگا۔ ان کے خیالات نے ان عناصر کو تقویت دی جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کر رہے تھے۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی بارہا عمران خان نے فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا جس کی ویڈیوز آن ریکارڈ موجود ہیں۔
2021 میں قبائلی علاقوں میں آبادکاری کی پالیسی کے تحت دہشت گرد عناصر کو دوبارہ جگہ دی گئی۔ وفاقی حکومت کے حکم پے بارڈر کو کھول کے شمال وزیرستان میں مداخیل اور تیرہ میں ککی خیل جیسے قبائل کی آبادکاری کے نام پر ایسے خاندان واپس لائے گئے جن کے درمیان دہشت گرد بھی شامل تھے۔ اس عمل نے نہ صرف امن و امان کو متاثر کیا بلکہ پاک فوج اور عام شہریوں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔پی ٹی آئی کی حکومت نے نومبر 2021 میں "گڈ ول جیسچر” کے نام پر 100 سے زائد خطرناک دہشت گردوں کو صوبے کی جیلوں سے رہا کیا، جنہوں نے بعد میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔
اس فیصلے نے فوج کی قربانیوں کو پس پشت ڈال دیا اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع دیا گیا۔
علاوہ ازیں، سوات، مالاکنڈ اور دیر جیسے کئی علاقوں میں فوج سے اختیارات واپس لے کر پولیس اور سول انتظامیہ کو سونپے گئے۔ سول انتظامیہ کی بد انتظامی اور نا اہلی سے ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال پر سمجھوتہ کیا گیا جس کے بعد دہشتگردی کا ناسور وہاں دوبارہ پنپنے لگا جس کو کسی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے فتنہ الخوارج کے ساتھ مذاکرات اور خیبرپختونخواہ میں ان کی آبادکاری کی پالیسی اپنائی۔ بقول عمران خان کے ، تقریباً 40 ہزار افراد کو افغانستان سے لا کے صوبے میں بسایا گیا اور مالی امداد بھی دی گئی۔ ان میں سے تقریباً 3500 افراد فتنہ ال خوارج سے منسلک تھے-
آج خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر انہیں پالیسیوں کا نتیجہ ہے، لیکن پی ٹی آئی قیادت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہمیشہ کی طرح اپنے کیے کا انجام سیکیورٹی فورسز پر لگا رہی ہے۔
سیکیورٹی فورسز آج بھی دن رات مادر وطن کے تحفظ میں مصروفِ عمل ہیں لیکن فوج سیاست دانوں اور سول انتظامیہ کی نا اہلی کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ حقیقتا، نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہونے ہوالے سول حکومت کے تمام کام پس پشت ڈال کر پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ذاتی مفادات کے لیے کرپشن کے ریکارڈ توڑے گئے ۔ اور مذاکرات کے نام پر دہشتگردوں کی آبادکاری میں سہولت کاری کی گئی۔ پاک فوج ہمیشہ قومی سلامتی کے لیے کھڑی رہی ہے۔ فوج نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی بلکہ قبائلی علاقوں میں عوام کی بہتری کے لیے کئی ترقیاتی منصوبے بھی مکمل کیے۔ ان قربانیوں کے باوجود، پی ٹی آئی حکومت کی ناقص پالیسیوں نے ملک کو دوبارہ خطرات کی جانب دھکیل دیا۔
بھارتی دہشت گردی، عالمی سطح پر بے نقاب
ٹرمپ ہوٹل کے باہر ٹیسلا کے سائبر ٹرک میں دھماکا،تحقیقات کا آغاز
ہجوم پر گاڑی چڑھانے والا امریکی شہری،گاڑی سے داعش کا جھنڈا برآمد








