پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواست خارج
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی کی اپیل خارج کرتے ہوئے 13 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
باغی ٹی وی : سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔ پی ٹی آئی نے نظر ثانی درخواست میں لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
تحریک انصاف کے وکیل حامدخان روسٹرم پرآئے کہا کہ لارجز بنچ تشکیل دینے کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جائے، یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے اور نیا بنچ تشکیل دیا جائے،موجودہ تین رکنی بنچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بنچ فیصلہ دے چکا ہے۔
بشریٰ بی بی کی بیٹیاں والدہ سے ملاقات کیلئے عدالت پہنچ گئیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ نظرثانی کا معاملہ ہےہم نے قانون کودیکھنا ہے، نظرثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں قانونی حثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟
حامد خان نے کہا کہ عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں،یہ اور معاملہ ہے وہ الگ معاملہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتاتھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی پر بات کرنے کی بجاے منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں، حامد خان نے کہا کہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں اپ کو مجبور نہیں کر سکتا، وکیل حامد خان نے کہاکہ مجھے دلائل نہیں دینے-
عمران خان کے ذاتی معالج سے معائنے کیلئے درخواست دائر
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جب نیازی صاحب وزیراعظم تھے توانٹرا پارٹی انتخابات کا نوٹس ہوا، تب بھی نہیں کروایاگیا، ایسا تونہیں کہ آپ لوگ انٹرپارٹی انتخابات کے لئے دلچسپی نہیں رکھتے؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت نے فریقین کے وکلا کو ایک اور موقع دیا لیکن کیس پر دلائل نہیں دیے گئے، ہمارے 13 جنوری کے فیصلے میں کوئی غلطی ثابت نہیں کی جا سکی لہٰذا نظرثانی درخواست خارج کی جاتی ہیں۔
دوران سماعت، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئینی ترمیم ہو چکی ہے اس لیے سپریم کورٹ اب یہ کیس نہ سنے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ میں نے ترمیم ابھی نہیں دیکھی اور ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔