خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ کو احتجاج میں شرکت کی دعوت دینے پر بھی تنقید کی، کہ یہ بات نامناسب ہے، کیونکہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کا ازلی دشمن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف پی ٹی آئی کا احتجاج ہے اور دوسری طرف چینیوں پر حملے ہو رہے ہیں، جو کہ ملک کی سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی، بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کو پاکستان پر حملہ آور قرار دیا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گنڈاپور نے پہلے سافٹ ویئر کی اپ ڈیٹ کی، اور پھر ہری پور کے راستے پشاور پہنچے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے مخصوص حکمت عملی اختیار کی۔خواجہ آصف نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب بھی پاکستان کی معیشت بہتر ہونے لگتی ہے، ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں جو ترقی کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اس وقت فوج کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے، جیسا کہ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے میں وضاحت کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال خاص طور پر اس وقت دیکھی گئی جب 2014 میں چینی صدر پاکستان آنے والے تھے، اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے پہلے بھی احتجاج جاری ہے۔وزیر دفاع نے پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر سوال اٹھایا، خاص طور پر فلسطین کے معاملے پر۔ انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف واقعی فلسطین کے ساتھ ہے تو انہیں فلسطین کے معاملے پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کرنی چاہیے تھی، لیکن ان کی غیر موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اصل میں دوسری طرف کھڑی ہیں۔
خواجہ آصف نے افغانستان سے آئے ہوئے شہریوں کے بارے میں بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے انہیں پیسے دے کر اسلام آباد لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے افغان جنگ میں پاکستان کے کردار پر بھی تنقید کی، کہ ہم نے ایک بڑی غلطی کی جب ہم اس جنگ میں شریک ہوئے۔عدلیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ججز کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے اور اس کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں پارلیمان اور عدلیہ دونوں کے نمائندے شامل ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن آجائے۔ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگر عمران خان بات چیت نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں بھی کوئی شوق نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کا ملٹری ٹرائل بھی ممکن ہے، اگر وہ اپنی پوزیشن کو تبدیل نہیں کرتے۔

Shares: