تحریک انصاف کی مقبولیت کے حقیقی ذمہ دار؟ تجزیہ: شہزاد قریشی

پاکستان

سابق آرمی چیف اور سابق وزیراعظم کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی تکرار ان کے اپنے ہی جن عہدوں پر فائز رہے ہیں بے توقیری کا سبب بن رہے ہیں۔ سابق آرمی چیف اور سابق وزیراعظم کو ملکی سالمیت اور قومی وقار کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ الزام تراشیوں میں مگن موجودہ حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کو بھی اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیئے۔

وقت آ پہنچا ہے کہ تمام اپنے گناہوں سے تائب ہر کر تعمیر وطن اور خدمت خلق کے جذبے سے کام کریں۔ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وطن عزیز کے وقار میں اضافہ قرضوں سے چھٹکارا ۔ ایک مستحکم پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سیاست جس حد تک کھوکھلی اور عوام کی نظر میں بے نقاب ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے اس کے اثرات ملک و قوم کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر بھی پڑرہے ہیں۔ ملک میں جس طرح ایک جمہوری حکومت میں آئین کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے جو کبھی آمریت کے دور میں ہوتا تھا آج جمہوری دور میں آئین سے کھلواڑ سمجھ سے بالاتر ہے ۔

نواز شریف اور مریم نواز جو بیانیہ پیش کررہے ہیں وہ ووٹ کو عزت ، انصاف اور عدل کی شفافیت انسانی حقوق کا بیانیہ ہے ۔ نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز جو بیانیہ عوام کے سامنے پیش کررہی ہیں اُن کی اپنی ہی جماعت میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو اس بیانیے سے کوسوں دور ہیں جو مفاہمتی راستوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

بھٹو کو نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے پاکستان میں مقبولیت ملی تھی انہوں نے ووٹ کو عزت یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ لگایا تھا لیکن اس کو تاریخی المیہ ہی کہا جائے کہ بعد میں یعنی آج بھٹو کی جماعت چند ایک کو چھوڑ کر بیوپاری اس جماعت پر بُراجمان ہیں۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی کا جو آج حال ہے وہ پاکستان تو کیا صرف صوبہ سندھ تک محدود ہو کررہی گئی ہے۔ کچھ اسی طرح کے راستوں پر نواز شریف کی جماعت چند ایک کو چھوڑ کر چل نکلی ہے ۔

مریم نواز اپنے والد کی جماعت کی ساکھ بحال کرنے تو نکلی ہیں مگر آج (ن) لیگ میں بھی بیوپاری بُراجمان ہیں اس لئے آج عمران خان کی جماعت کا پنجاب میں طوطی بولتا ہے اگر عمران خان کی جماعت مقبول ہے تو اس کے ذمہ دار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں نظریات توپہلے ہی دفن ہو چکے ہیں جس کا خمیازہ سیاسی جماعتیں خود بھگت رہی ہیں۔

(تجزیہ شہزاد قریشی)

Comments are closed.