پاکستان تحریکِ انصاف کی یورپ اور برطانیہ میں ہونے والی ملاقاتوں، درخواستوں اور احتجاجی سرگرمیوں نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، پارٹی نے غیر ملکی اداروں میں پاکستان کے خلاف لابنگ کر کے ریڈ لائن عبور کی ہے۔

پی ٹی آئی یوکے کا نو رکنی وفد ایم ای پی مائیکل گاہلر سے ملا، جہاں دھاندلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کی گئی.یہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے خلاف کھلی لابنگ قرار دی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی ایکٹوسٹ حسین احمد نے یورپی پارلیمنٹ میں متعدد درخواستیں جمع کرائیں جن میں پاکستان کو غیر محفوظ ملک ظاہر کیا گیا اور بشریٰ بی بی پر جھوٹا “جان کا خطرہ” بیان کیا گیا۔ اسی حسین احمد نے یورپی پارلیمنٹ سے پاکستان کے انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا جسے جی ایس پی پلس کے تحت حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

برسلز میں پی ٹی آئی سے منسلک گروپس نے EU سفیر رینا کیونکا کو ٹارگٹ کرتے ہوئے آن لائن مہم چلائی اور پاکستان پر ICCPR خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔ پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے درخواستیں یورپی یونین کے بڑے اداروں—AFET، INTA، DROI، اور EEAS—تک پہنچائی گئیں تاکہ پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھایا جائے۔ زلفی بخاری اور جیرڈ جینسر کی ٹیم نے EU حکام پاؤلا پمپلونی اور دیرن دریاء سے ملاقات کی، جس میں پاکستان کے عدالتی اور سیاسی ماحول پر منفی مؤقف پیش کیا گیا۔

شہباز گل نے ڈچ ایم پی اسٹیفن وین بارلے اور سابق اطالوی سینیٹر ماریو مورگونی سے ملاقات میں پاکستان کے خلاف لابنگ کی اور عمران خان کے مقدمات پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ بیلجیئم میں یورپی پارلیمنٹ کے سامنے پی ٹی آئی نے احتجاج کیا جس میں پاکستانی عسکری قیادت کے خلاف عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں مقدمات چلانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے ICC پراسیکیوٹر کریم خان کو ایمیلز بھیج کر پاکستان میں “کرائمز اگینسٹ ہیومینٹی” کے بے بنیاد الزامات لگائے—جو پاکستان کے خلاف سب سے سخت مؤقف سمجھا جاتا ہے۔

21 مارچ 2025 کو زلفی بخاری نے EEAS افسران سے دوبارہ ملاقات کی، جس میں پاکستان کی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر ایک مرتبہ پھر منفی بیانیہ پیش کیا گیا۔ یورپی پارلیمنٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائی گئی تمام بڑی پٹیشنز کو “ثبوت نہ ہونے” کی بنیاد پر بند کر دیا—جس سے پاکستان کا مؤقف مضبوط ہوا کہ یہ دعوے بے بنیاد تھے۔ پی ٹی آئی کی غیر ملکی شاخیں مسلسل EU حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہیں کہ پاکستان بنیادی انسانی آزادیوں کی خلاف ورزی کرتا ہےاور یہی بیانیہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یا گروہ بیرونی قوتوں کو پاکستان کے خلاف قدم اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے تو کیا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 6 کے دائرے میں آسکتا ہے؟ اس پر مختلف ماہرینِ قانون نے رائے دی ہے کہ آرٹیکل 6 کا اطلاق انتہائی غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ عدالتوں کا دائرہ اختیار ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مداخلت کی دعوت دینا آرٹیکل 6 کے معیار میں شامل ہوسکتا ہے، تاہم حتمی تشریح عدالت کرے گی۔
عالمی عدالت میں ’’جرائمِ انسانیت‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرنے پر بھی PTI کارکنوں پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق داخلی سیاسی تنازعات کو اس حد تک بین الاقوامی کرنا آئین میں موجود ’’ریڈ لائنز‘‘ کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانیوں کابرطانیہ ویزا سسٹم کی خامیوں کا فائدہ اٹھانے کا انکشاف

پاکستانیوں کابرطانیہ ویزا سسٹم کی خامیوں کا فائدہ اٹھانے کا انکشاف

علی ترین کا ملتان سلطانز سے الگ ہونے کا اعلان، نئے مالک کی حمایت

Shares: