پی ٹی آئی کے متنازعہ اقدامات، عوامی مفاد یا پاکستان دشمنی؟

پی ٹی آئی کے متنازعہ اقدامات، عوامی مفاد یا پاکستان دشمنی؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت پر مسلسل الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ ملکی مفادات کے خلاف سرگرمیاں کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے ایک اہم دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں آئی ایم ایف مشن کو ایک ڈوزیئر اور خط ارسال کیا ہے، جس میں عام انتخابات میں دھاندلی کے ٹھوس شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔ اس ڈوزیئر کو چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بھیجا گیا ہے اور اس میں انتخابی نتائج کی انجینئرنگ اور ریاستی اداروں کی جانب سے پی ٹی آئی کے عوامی مینڈیٹ کو چھینے جانے کی تفصیلات درج ہیں۔ عمر ایوب کا کہنا ہے کہ شفافیت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر پاکستان میں اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام ممکن نہیں اور ان سنگین خدشات کو بین الاقوامی اداروں کی توجہ دلانا ضروری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مختلف اقدامات نے ملکی ساکھ اور مفادات پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے احتجاجات اور سیاسی سرگرمیاں ان الزامات کا سبب بنی ہیں کہ پارٹی نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ ان میں غیر ملکی وفود کی آمد کے دوران احتجاج، اہم بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت سے انکار اور ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیاں شامل ہیں۔

اکتوبر 2024 میں اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی نے 15 اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاج کی کال دی۔ حکومتی وزراء نے اس اقدام کو پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ سب کچھ دشمن کے ایجنڈے کے مطابق ہو رہا تھا۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس احتجاج کو ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے کرکٹ میچز کے دوران بھی احتجاج کی کال دی، جس سے ملکی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ 8 فروری 2025 کو لاہور میں ہونے والے کرکٹ میچ کے دوران احتجاج کی اجازت طلب کی گئی جو عالمی سطح پر پاکستان کی کرکٹ امیج کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی تھی۔

پی ٹی آئی پر دشمن طاقتوں سے روابط کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے عمران خان پر دوغلی پالیسی اپنانے اور جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے یہ اقدامات واقعی ملکی مفادات کے خلاف ہیں؟ ان الزامات میں یہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی مفادات کے لیے ملکی ساکھ کو داؤ پر لگایا ہے اور بعض رہنماؤں پر ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

پی ٹی آئی کی احتجاجی تاریخ بھی غیر معمولی ہے، جس میں 2014 کا آزادی مارچ، 2016 میں پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد ہونے والا احتجاج اور 2024 میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج شامل ہیں۔ ان احتجاجات کا مقصد عموماً حکومت پر دباؤ ڈالنا اور سیاسی مطالبات کی منظوری حاصل کرنا ہوتا تھا، جو بعض اوقات غیر ملکی وفود کی آمد یا اہم بین الاقوامی اجلاسوں کے دوران بھی منعقد کیے گئے۔

اس سارے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے اقدامات واقعی پاکستان دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات کا مقصد ملک کو کرپشن سے پاک کرنا اور عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان دشمنی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ تاہم مخالفین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے پاکستان کی ساکھ اور سلامتی کو نقصان پہنچا ہے اور یہ پارٹی اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

کیا واقعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل میں پاکستان میں عدم استحکام، انتشار اور ملک دشمنی میں ملوث رہی ہے؟ یہ سوال ایک سنگین پہلو اختیار کرتا ہے جس پر آزادانہ اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے اقدامات حقیقت میں پاکستان دشمنی پر مبنی ثابت ہوں تو ان الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور پی ٹی آئی کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔

تاہم اگر یہ تمام الزامات صرف سیاسی سکورنگ یا سیاسی بیانئے کا حصہ ہیں تو پھر ملک کو مزید انتشار اور خلفشار میں نہ دھکیلیں۔ پاکستان کی ساکھ اور سلامتی کے لیے ہر اقدام انتہائی احتیاط کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ آخرکار ہم سب کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان کو داخلی طور پر پرامن، مضبوط اور عالمی سطح پر مستحکم رکھا جائے اور پاکستان دشمن قوتوں سے قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا سکے۔

Comments are closed.