پب جی کے ذریعے دہشتگردی: سوات میں گرفتار دہشتگردوں کا اعتراف

آن لائن گیمز، خاص طور پر ’پب جی‘ جیسے پلیٹ فارمز، جہاں نوجوان تفریح اور مقابلے کی غرض سے کھیلتے ہیں، اب دہشتگردوں کے ذریعہ استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ہونے والا حالیہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشتگردی جیسے منفی عزائم کے لیے بھی انٹرنیٹ گیمز کا غلط استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ 28 اگست 2024 کو سوات کے علاقے مینگورہ میں بنڑ پولیس چوکی کو نشانہ بنانے کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور ایک اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات کے دوران دہشتگردوں نے انکشاف کیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی اور رابطے کے لیے ’پب جی‘ گیم کا استعمال کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دہشتگردوں نے پب جی جیسے انٹرٹینمنٹ پلیٹ فارم کو اپنا پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا، جو سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سوات، ڈاکٹر زاہد اللّٰہ کے مطابق، گرفتار دہشتگردوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے حملے کی منصوبہ بندی کے دوران رابطے کے لیے پب جی گیم کے چیٹ رومز کا استعمال کیا۔ گیمز کے ذریعے وائس میسجز اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے، جو کہ فوری اور مؤثر طریقہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پب جی گیم میں ٹیم بنانے کے بعد کھلاڑیوں کے درمیان ریئل ٹائم میں رابطے کی سہولت موجود ہوتی ہے، جو وائس چیٹ اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ اس گیم کو دہشتگردی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی خطرات میں بھی جدت آ رہی ہے۔
پہلے واٹس ایپ، ٹیلی گرام، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر دہشتگرد پیغامات کی ترسیل کے لیے انحصار کرتے تھے، لیکن پب جی جیسی گیمز کا استعمال دہشتگردی کے منصوبوں میں ایک نیا اور انوکھا اضافہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ پلیٹ فارمز اکثر انکرپٹڈ پیغامات کی ترسیل فراہم کرتے ہیں، لہذا ان پر نظر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سائبر ماہرین اور ان ایپلی کیشنز کے فراہم کنندگان کی مدد حاصل کرنا لازمی ہے۔سوات کا واقعہ سائبر سیکیورٹی ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ پب جی یا دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے دہشتگردوں کی پیغام رسانی کو روکنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہو گی۔ حکومت اور سیکیورٹی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح ایسی ایپلی کیشنز کو محفوظ بنایا جا سکے تاکہ انہیں دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب دہشتگرد تنظیموں نے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھایا ہو۔ پہلے بھی کالعدم تنظیموں کے نمائندگان نے اینڈرائیڈ اور آئی فونز کے ذریعے پیغامات پہنچانے کے طریقے سکھائے ہیں۔ اس نئی پیشرفت کے ساتھ یہ بات اور واضح ہو چکی ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں ہر ممکن ذرائع کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔یہ صورتحال نہ صرف سائبر سیکیورٹی ماہرین کے لیے ایک خطرناک چیلنج ہے، بلکہ سیکیورٹی ایجنسیز کو بھی اس پر فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایپلی کیشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کے ذریعے دہشتگردوں کے پیغام رسانی کے ان طریقوں کو روکا جا سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ جدید ترین طریقوں سے دہشتگردوں کی چالوں کا مقابلہ کیا جائے، تاکہ عوام کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Comments are closed.