بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی بات کی جاے ۔تو کئی سال قبل کی بات ہے کہ پہلے گھروں کا ماحول کم تعلیم یافتہ رہ کر بھی کیا خوب تھا.جب بچے جوتے پہن کر پاؤں کو گھسیٹ کر چلتے دکھائی دیتے تو ماں اُسے اِس حرکت پر سرزنش کرتی اور کہتی کہ اچھے بچے اس طرح نہیں چلا کرتے،اسی طرح زور زور سے ہنسنے،چیخنے چلانے سے منع کرتی،آہستہ بولنے کی ترغیب دیتی.اور دیگر آداب گھروں میں بچوں اور بچیوں کی تربیت کے لیے مائیں سکھاتی ہوئی نظر آتی تھیں،وہ اس مقولے پر عمل کرتی تھیں کہ کھلاو سونے کا نوالہ لیکن دیکھو شیر کی نگاہ سے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی تربیت میں پروان چڑھنے والی اولاد اپنی اسی بہترین تربیت کی وجہ سے مثالی اولاد قرار پاتی تھی،ماں سے اولاد قرآن سیکھنے.دعائیں یاد کرنے.قصے کہانیاں وغیرہ سننے کی عادی تھی.اس طرح بچے طفلی مکتب کے زمانے سے ہی بچوں کے عالم شمار ہوتے.یومیہ تلاوتِ قرآن کا ماحول پابندی سے ہوتا.ان میں پھر دادا دادی اگر تلاوت کر رہے ہوتے تو بچے ان کی گود میں جا کر بیٹھتے اور قرآن سنتے.اِسی حسن تربیت اور ماحول سے بچے تربیت یافتہ ہو کر نکھرتے تھے.اسی طرح بچوں کے کھیل بھی نرالے ہوتے تھے۔اور اس کے برعکس آج دیکھا جاے تو آج کل
پبلسٹی ۔مشہوری ہمارے معاشرے کا بڑھتا ہوا ناسور ہے ۔۔بچے سے لیکر بزرگ تک جس کے پاس ٹچ موبائل ہے ہر کسی کی یہ کوشش ہے کہ راتوں رات انٹرنیٹ کی دنیا میں مشہور ہوا جاے ۔اس مشہوری کے چکر میں اکثریت والدین اپنے کم عمر بچوں کا استعمال بھی کررہے ہیں ۔اگر ان کو کہا جاے کہ خدا کا واسطہ یار بچوں کے ننھے دماغوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرو ۔تو ان کے چمچے کہیں گے ۔۔کہ جناب یہ تو جلتا ہے بچے سے جلتے ہے ۔مطلب کہ آئنہ نہیں دیکھنا ۔الٹا طنزیہ کلام شروع ۔۔بچوں کے کچے ذہنوں کو استعمال کرنے والے جانتے نہیں کہ کل یہی بچے ان کے سامنے صرف تقاریر لمبے بھاشن ہی جھاڑیں گے ۔۔اخلاق خدمت کی ہرگز توقع نہ رکھیے گا ۔کیونکہ آپ نے بچوں کو صرف سکرین کے آگے بول کر لوگوں کو متاثر کرنا سکھایا ۔آپ نے ہجوم میں بچےکو سلام کرنا تو سکھایا لیکن گھر بزرگ نانا نانی دادا دادی سے ملنے کی بھی پابندی لگا دی ۔کہ نہیں وقت نہیں ہے ۔۔بہت مصروفیات ہے وڈیو بنانے میں ۔۔ہمارے ہاں بچوں کو فون لیپ ٹاپ آئ پیڈ دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم بہت ماڈرن ہے ۔۔ہمارے بچے بہت ماڈرن ہے ۔مطلب اپنی طرف سے یورپی گوروں کے بچوں کی نقل ۔لیکن آپ جانتے ہیں یورپی ملکوں میں بچوں کو فون نہیں دیتے ۔اگر دیتے ہیں تو والدین پر زمہ داری ہے کہ بچے پہ پوری نگرانی کی جاے ۔بچہ فون میں کچھ غلط تو نہیں سیکھ رہا ۔بچے کی ہر ایکٹویٹی پر نظر رکھنا والدین کی زمہ داری میں ہوتا ہے اور یہ زمہ داری حکومت یا بچے کے سکول کی طرف سے بھی ہوتی ہے ۔۔لیکن ہم تو بچوں کو فون دے کر بچوں کی تربیت کرنا ہی بھول گے ۔ہمیں نہیں پتہ بچے فون میں کیا دیکھ رہے ۔کیا سیکھ رہے ہیں ۔یا پھر کم عمر بچے کسی غلط ایکٹویٹی کا حصہ تو نہیں بن گے ۔۔ہم خوش ہوتے ہیں بس اس بات پر دیکھو بچہ گیم کھیل کھیل کر انگریزی سیکھ گیا ۔دیکھ میرا بچہ کتنا لائق ہے مشکل سے مشکل اون لائن گیم کھیل لیتا ہے جیتتا بھی ہے لیکن کبھی غور کیا ۔وہی بچہ نماز پڑھتا ہے۔کیا اس بچے کو نماز پڑھنا آتی ہے ۔کیا اس بچے کو چھ کلمہ آتے ہیں ۔کیا اس بچے کے بولنے کے انداز میں بدتمیزی تو نہیں جھلک رہی ۔۔۔کیا بچہ چوبیس گھنٹے موبائل فون استعمال کر کر کہ نفسیاتی اور چڑا چڑا تو نہیں ہورہا ۔کیا بچہ اپنے فون کے بنا دو گھنٹے بھی رہ سکتا ہے ۔۔یہ تو ہم بھول ہی گے ۔۔ہم نے بچوں کو سکھایا کیا ۔صرف مشہور ہونا ۔۔کہ جتنا بولو گے اتنے لائک اتنا زیادہ پیسہ اتنا زیادہ تالی مارنے والا ہجوم ۔بچوں کی اچھی تربیت صرف والدین کے لیے اہم نہیں ۔بلکہ معاشرے کا ایک بہترین انسان بننانے کے لیے بھی اہم ہے ۔ایسا انسان جس پر ہر کوی ناز کرے ۔۔جو سڑک میں گرا پتھر ثابت نہ ہو بلکہ تپتے صحرا میں وہ دھوپ کی مانند درخت ہو جو اپنے اخلاق سے دوسروں کو چھاوں دے سکیں ۔حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرت عبداللہ ابن عباس رضى الله تعالى عنه کو بچپن میں تعلیم فرماتے ہیں ”اے بچے! خدا کو یاد رکھ تو اس کو اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ ہی سے مدد مانگ اور جان لے اس بات کو کہ اگر تمام لوگ اس بات پر اتفاق کرلیں کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو ہرگز اس کے سوا کچھ نفع نہیں پہنچاسکتے جو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے اور اگر سب لوگ اس پر متفق ہوجائیں کہ تجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے جو اللہ نے تیرے واسطے لکھ دیا ہے۔(مشکوٰة شریف،ص:۴۵۳)
پبلسٹی مشہوری کی بجاے بچپن سے ہی توحید کی بنیاد پر بچہ کی ذہن سازی کی جائے اور اس کا یقین اللہ کی ذات پر پختہ کرادیا جائے تو اس کے اثرات نمایاں محسوس ہوتے ہیں، توہمات سے اس کا دل ودماغ پاک رہتا ہے اس کے اندر غیرت اور خودداری آجاتی ہے اور بچپن میں بناہوا یقین دل میں پختگی کے ساتھ جم جاتا ہے۔
۔
Shares: