وزیر ثقافت عظمیٰ بخاری کے آنے کے بعد سے تھیٹر سے وابستہ لوگوں کو جھوٹی تعریفیں کرتا بھی دیکھا گیا۔ اس کی وجہ نا عوام سے پوشیدہ ہے نہ اداروں کی سطح پر فعال کرداروں کے لیے یہ کوئی ان ہونی بات ہے۔ وزیر صاحبہ نے سیاسی پوائنٹ سکرونگ کے لیے جو اقدامات کیے وہ آہستہ آہستہ ان اداروں کے گلے پڑ چکے ہیں جن کا تھیٹر کے حوالے سے کبھی کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وزیر صاحبہ کا سیاسی ایجنڈا جب سماجی عناصر کے ہاتھوں اپنی نوک پلک سنوارتا ہے تو اس کے اثرات شہ سرخیاں بن جاتے ہیں اور ویسے بھی ان کے پاس اطلاعات کا قلم دان بھی ہے ، ایسے میں اپنی بنائی ثقافت کی اطلاع کانوں میں رس گھولتی ہے۔ فیملی تھیٹر کی بحالی کا جو ایجنڈا عظمیٰ بخاری لے کر چلیں اس کا سپہ سالار پنجاب آرٹس کونسل کو بنایا گیا جس میں رانا تنویر ماجد اور مغیث بن عزیز پیش پیش رہے۔ یہ وہی مغیث بن عزیز ہے جن کی گریڈ 19 میں مشکوک ترقی کا شور صوبائی اسمبلیوں تک گیا ہے اور نہلے پر دھیلا یہ ہے کہ پارلیمانی سیکرٹری شازیہ رضوان نے مغیث بن عزیز اور اس کے پی پی ایس سی کے ذریعے گریڈ 17 میں بھرتی رفقاء کو ہر حوالے سے نشانہ عبرت بنانے کی کوشش کی جس کی نشاندہی خود ان کے دفتر سے جاری خطوط او ر مراسلے چیخ چیخ کر کر رہے ہیں۔ یہ تو 2011ء میں پی پی ایس سی سے بھرتی افسروں کی خوش قسمتی کہ وہ 2019 ء میں بھرتی افسروں کے سیاسی و مفاداتی و ادارتی وار سے تاحال محفوظ ہیں۔ بات کدھر تھی کدھر نکل آئی۔ خیر مغیث بن عزیز نے اپنی ڈرامہ ٹیم کے ہمراہ لاہور میں فحاشی اور عریانی کے تدارک کے لیے تھیٹر کی کامیاب مانیٹرنگ کو یقینی بنایا جس پر تھیٹر مافیا سر کے بل محترمہ وزیر کے روبرو آہ و بکا کرتے نظر آئے۔ یہی تو سیاسی زندگی ہوتی ہے کسی بھی سیاسی ورکر کی۔ مغیث بن عزیز اور تنویر ماجد جیسے سرکاری افسروں کا خون چوس کر اپنی سیاسی ساکھ بنانا کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔ جی میڈم کے ورد نے انہیں دور دراز کے تبادلےاور او ایس ڈی شپ سے بچائے رکھا ہے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ افسروں کی جنس بھی بازار کی رونق بن چکی ہے، استعمال کیا اور چلتے بنے ،

پنجاب کی بیوروکریسی کا کم و بیش حال بھی پنجاب آرٹس کونسل کے افسران جیسا ہے۔ اب جب بادی النظر میں فتح کا علم سیاسی وزرا کے ہاتھوں میں ہے وہیں ان ہاتھوں کو مضبوط کرنے والوں کے اپنے پاؤں کے نشان گم ہو چکے ہیں اور انہی حالات میں محکمہ اطلاعات و ثقافت پر نئے آسیب وارد ہو چکے ہیں ورنہ آج تک تھیٹر ایس او پیز جاری ہو چکے ہوتے۔ یہ وہی تھیٹر ایس او پیز ہیں جن کی وجہ سے لگ بھگ ایک درجن عدالتی فیصلوں میں پنجاب آرٹس کونسل کو خفگی اٹھانی پڑی۔ نو آبادیاتی ڈرامہ ایکٹ کی بھاگ دوڑ اطلاعات و ثقافت کے ہاتھ آنے کے بعد ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ایس او پیز کا نہ ہونا خود محکمہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ جہاں آرٹس کونسل کے ڈویژنل ڈائریکٹر عدالتوں میں جھوٹ بولتے پائے گئے یا عدالتوں کے آگے کسی بھی سوال پر ہمیشہ کے لیے گم سم ہو گئے۔ ان عناصر میں کئی ایک یقینی طور پر اسی پرانی روش پر تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہوں گے مگر یہ سب کچھ محکمے کے بڑوں کی غفلت کا ہی شاخسانہ ہے۔ ضلع مظفر گڑھ کی حدود میں موجود خان محل تھیٹر علی پور درد سر بن چکا ہے۔ متعلقہ آرٹس کونسل کے حکام صمٌ ّبکمٌّ ہو چکے ہیں۔ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کر کے اس کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ اسی طرح صادق آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بہاولپور آرٹس کونسل سے خلاف ورزی کرنے والے تھیٹروں کے خلاف کارروائی سے معذرت کر لی ہے۔کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا ای مانیٹرنگ کا نظام فیل ہو چکا ہے۔ عدالتی فیصلوں اور سیاسی برجوں کی بے توجہی نے متعلقہ افسران کو بے دلی میں مبتلا کر دیا ہے جہاں اخباروں میں آئے روز کامیڈیا ٹرائل ان کا مقدر بن چکا ہے تو دوسری طرف ضلعی انتظامیہ اپنے اختیارات کم ہونے پر منافقت سے کام لے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب آرٹس کونسل کے افسران کی ٹریننگ کی جائےاور اس کے ساتھ ساتھ محکمہ کی ذمہ داریوں کو شفاف رکھنےاور محکمے کی ساکھ کو بچانے کے لیے افسروں کے آڈٹ کرنے کی بھی ضرورت ہے ورنہ پنجاب تھیٹر صادق آباد، نور محل رحیم یار خان، کراؤن تھیٹر چشتیاں، راوی تھیٹر بہاول نگر اور شیخوپورہ ، صنوبر تھیٹر دریا خان، خان محل تھیٹر علی پور، کراؤن تھیٹر دوکوٹہ، ریکس تھیٹر ملتان کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان تو پہنچے گا ساتھ میں ریاستی رٹ اور مغیث بن عزیز جیسے ذمہ دار افسران کی محنت پر بھی پانی پھر جائے گا۔ خدارا اداروں میں سیاسی مداخلت کم کی جائے ورنہ تبادلوں کا خوف اور جی حضوری کا کلچر پاکستان خصو صاً پنجاب کو تباہی کے دھانے پر لے آئے گا۔ جہاں ترقیاتی سکیموں کا شفاف آڈٹ وقت کی ضرورت ہے وہیں تھیٹر مافیا کو محکمے میں موجود مال روڈ (بزم اقبال) کی بلڈنگ میں واقع ’’منزلِ مقصود‘‘ راستہ دیتی رہے گی جہاں آج بھی ہمدان اور بخارا سے آئے زیرک افراد کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکی جا رہی ہے خدا نہ کرے کہ وہ اس ساری واردات میں سہولت کار نکلیں؟

پنجاب میں تھیٹر بحران شدت اختیار کر گیا، محکمہ ثقافت اور ضلعی انتظامیہ آمنے سامنے
پنجاب میں تھیٹر کی دنیا اس وقت شدید بدانتظامی، سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کی زد میں ہے۔ جہاں حکومت ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کی دعوے دار ہے، وہیں اسٹیج تھیٹرز انتظامی بدنظمی، غیر قانونی تجاوزات اور سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیرِ ثقافت نے ایک غیر رسمی تقریب میں تھیٹر کی بحالی اور خاندانی شرکت کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر معروف فنکار قیصر پیا سمیت دیگر سینئر فنکار موجود تھے۔ وزیر موصوفہ کے بیان کے بعد پنجاب کے تاریخی اوپن ایئر تھیٹر کی بحالی کی خبر سامنے آئی، جسے ماضی میں صادقین، امان اللہ اور دیگر بڑے فنکاروں کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔یہ مقام طویل عرصے سے بلدیاتی غفلت کا شکار رہا، یہاں تک کہ اسے آوارہ کتوں نے اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اب حکام کا دعویٰ ہے کہ صفائی اور بحالی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

اداکارہ عفت عمر کو حال ہی میں محکمہ ثقافت میں بطور مشیر تعینات کیا گیا ہے، جسے کئی حلقوں نے خوش آئند قدم قرار دیا ہے۔ تاہم، ساتھ ہی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی اوپن ایئر تھیٹر پر بڑھتی ہوئی گرفت تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تھیٹر کی موجودہ انتظامیہ نہ صرف مالی طور پر بدحال ہے بلکہ اس کی حیثیت ایسے افراد جیسی ہو چکی ہے جو خود اپنا ہی گھر گرا کر اب اس کی حفاظت کے لیے امداد مانگ رہے ہیں۔ اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کہیں یہ تاریخی ورثہ بھی پی ایچ اے کے حوالے نہ کر دیا جائے۔

پنجاب کے مختلف اضلاع میں تھیٹروں کی صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ لاہور کے سوا دیگر اضلاع میں ضلعی افسران اور بعض پارلیمانی عہدیداران کی ملی بھگت سے نہ صرف شو کے اوقات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ تھیٹروں سے غیر قانونی وصولیوں کی بھی اطلاعات ہیں۔شیخوپورہ میں ایک پارلیمانی دفتر سے منسلک اہلکار پر روزانہ کی بنیاد پر تھیٹروں سے رقوم لینے اور پنجاب آرٹس کونسل کی اسکرپٹ سکروٹنی فیس کے علاوہ اضافی چارجز وصول کرنے کا الزام ہے۔ جب ضلعی افسر نے کارروائی کرتے ہوئے اسے ہٹانے کا حکم دیا تو مذکورہ پارلیمانی خاتون نمائندہ فوری طور پر شیخوپورہ پہنچ گئیں اور مالکان سے مذاکرات شروع کر دیے۔ذرائع کے مطابق یہ اہلکار اب بھی اپنے عہدے پر فائز ہے اور اسے سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔

پنجاب آرٹس کونسل پر بھی کرپشن اور اقربا پروری کے سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ اخبار میں شائع رپورٹس کے مطابق کئی بار خلاف ضابطہ طور پر تھیٹرز کو بند کیا گیا، جب کہ قانون کے مطابق صرف محکمہ اطلاعات و ثقافت کو یہ اختیار حاصل ہے۔کئی تھیٹرز اس وقت بغیر تجدید شدہ لائسنس کے چل رہے ہیں، کیونکہ ان کا انتظامی کنٹرول ہوم ڈیپارٹمنٹ سے محکمہ ثقافت کو منتقل کیا جا چکا ہے۔ اس دوران ضلعی انتظامیہ اور آرٹس کونسل، دونوں ادارے بیک وقت اختیارات استعمال کرتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

راولپنڈی کے موتی محل تھیٹر میں سات غیرقانونی اسٹیج ڈرامے اس وقت منظرِ عام پر آئے، جن کے خلاف نہ کوئی نوٹس جاری ہوا اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قانون صرف عام شہریوں کے لیے ہے؟ یا بیوروکریسی اور ان کے عزیز و اقارب ہر قسم کی احتسابی کارروائی سے محفوظ ہیں؟

ثقافتی ماہرین اور تھیٹر سے وابستہ شخصیات کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تھیٹرز محض تجارتی ادارے بن کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی کی بنا پر اگر کوئی ناقد بنے تو جھوٹی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں، اور اگر کسی کو بچانا ہو تو قانون کی آنکھیں بند کر دی جاتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ وزیرِ ثقافت کے وعدے اور دعوے صرف سیاسی بیانات تھے یا ان میں کوئی عملی قدم بھی شامل ہے؟ محکمہ ثقافت میں ایماندار افسران کی تعیناتی کب ہو گی؟ کیا پنجاب آرٹس کونسل واقعی اصلاحات کا منتظر ہے یا بدعنوان عناصر کا مرکز بن چکا ہے؟

ڈرامہ فیسٹیول کی منسوخی پر فنکاروں کا احتجاج، سیاسی مداخلت کا الزام
راولپنڈی پریس کلب کے باہر مقامی فنکاروں نے ایک پُرامن احتجاج کیا، جس میں اچانک منسوخ کیے گئے ڈرامہ فیسٹیول کے خلاف شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ فنکاروں نے الزام عائد کیا کہ فیسٹیول کی منسوخی سیاسی شخصیات کی ثقافتی امور میں مداخلت کا نتیجہ ہے اور یہ فنکارانہ اظہار کی آزادی کو دبانے کے مترادف ہے۔
احتجاج کا ہدف پنجاب کی پارلیمانی سیکرٹری برائے ثقافت شازیہ رضوان تھیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ راولپنڈی آرٹس کونسل کے معاملات میں سیاسی مداخلت فوری طور پر ختم کی جائے۔سینئر فنکارہ اسما بٹ نے "دی رپورٹرز” سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ڈرامہ فیسٹیول کی تیاریاں دو ماہ سے جاری تھیں، اور اس کی نگرانی کے لیے سینئر فنکاروں اور تھیٹر ماہرین پر مشتمل ایک اسکرونٹی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔ کمیٹی کی منظوری کے بعد باقاعدہ شیڈول جاری کیا گیا تھا۔اسما بٹ نے بتایا کہ ان کا ڈرامہ ’’خالی اسٹیج‘‘ 2 جون کو راولپنڈی آرٹس کونسل میں پیش کیا جانا تھا، لیکن ایک دن پہلے آرٹس کونسل کے حکام نے انہیں مطلع کیا کہ شازیہ رضوان نے وزیرِ اطلاعات سے شکایت کی ہے اور ان کے ڈرامے کو فہرست سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا: ’’مجھے کہا گیا کہ فیس بک پر یہ پوسٹ کردوں کہ میں بیمار ہوں اور پرفارم نہیں کر سکتی۔ میں نے انکار کر دیا اور واضح کیا کہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ مقررہ وقت پر ڈرامہ پیش کروں گی۔ اگر روکا گیا تو میں معاملہ عوام کے سامنے لاؤں گی۔‘‘اسما بٹ کے مطابق، اس "شرمندگی” سے بچنے کے لیے آرٹس کونسل نے پورا ڈرامہ فیسٹیول ہی منسوخ کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے بعد راولپنڈی آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر سجاد حسین کا تبادلہ بھی کر دیا گیا ہے۔اسما بٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے واقعے کا نوٹس لینے اور ثقافتی اداروں کو سیاسی دباؤ سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

Shares: