لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے انتخابات ترمیمی ایکٹ 2024 کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ منگل کے روز اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے ای سی پی کو دوسرا خط لکھا گیا، جس میں انہوں نے زور دیا کہ اس اہم قانون کی عمل درآمد میں مزید تاخیر جمہوریت اور عوامی خواہشات کے منافی ہے۔ملک احمد خان نے اپنے خط میں پارلیمانی بالادستی کو جمہوریت کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات ترمیمی ایکٹ 2024 پر فوری عملدرآمد نہ ہونا عوام کی مرضی اور جمہوری نظام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کا احترام کرے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی نے خط میں مزید لکھا کہ انتخابات ایکٹ پر فوری عملدرآمد جمہوری نظام کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس قانون کے نفاذ میں مزید تاخیر ناقابلِ قبول ہوگی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی عوامی مفاد میں ہوتی ہے اور اس کی بروقت عمل درآمد کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ملک احمد خان نے اپنے خط میں اس بات پر بھی زور دیا کہ پارلیمانی بالادستی جمہوری نظام کی کامیابی کا سنگِ بنیاد ہے اور انتخابات ترمیمی ایکٹ 2024 پر عملدرآمد کے حوالے سے تاخیر سے جمہوری نظام میں عوام کا اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی فیصلوں کو نظرانداز کرنا عوامی نمائندگی کی توہین ہے اور الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنا چاہیے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک احمد خان اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے انتخابات ترمیمی ایکٹ کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، تاحال الیکشن کمیشن کی جانب سے اس پر کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انتخابات ترمیمی ایکٹ 2024 پاکستانی انتخابی نظام میں شفافیت اور اصلاحات لانے کے حوالے سے ایک اہم قانون ہے جسے پارلیمنٹ نے حال ہی میں منظور کیا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد انتخابی عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے تاکہ انتخابات کے نتائج عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوں۔ملک احمد خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے مسلسل خطوط اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ انتخابات ترمیمی ایکٹ 2024 کی فوری عمل درآمد کو جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
Shares: