لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی: پنجاب حکومت کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ

lahore

لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے معاملے میں پنجاب حکومت کی ہائی پاور کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ جاری کی ہے۔ کمیٹی نے متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین سے ان کے گھر پر تین گھنٹے تک ملاقات کی اور اس معاملے میں 36 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے۔رپورٹ کے مطابق، وزیراعلیٰ پنجاب کی تشکیل کردہ ہائی پاور کمیٹی نے منگل کو اس کیس کی انکوائری میں دن گزارا۔ سول سیکریٹریٹ میں منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تمام عوامل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز عارف چوہدری، کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، اور دیگر شامل تھے۔
متاثرہ طالبہ اور اس کے والدین نے واضح کیا کہ 2 اکتوبر کو بچی اپنے گھر میں بیڈ سے گری، جس کے بعد وہ پہلے جنرل اسپتال اور پھر 3 اکتوبر کو کینٹ میں موجود برین اینڈ سپائن کلینک میں ڈاکٹر صابر حسین کے پاس علاج کروانے گئیں۔ 4 اکتوبر کو انہیں ماڈل ٹاؤن لاہور کے اتفاق اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں بچی کی حالت کی شدت کے باعث وہ آئی سی یو میں بھی رہیں۔ انہیں 11 اکتوبر کو اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا۔متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین نے بتایا کہ وہ 3 اکتوبر سے 15 اکتوبر تک کالج سے باقاعدہ چھٹی پر رہی ہیں، اور اس دوران سوشل میڈیا پر ان کا نام جھوٹے واقعات سے جوڑا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا زیادتی کا واقعہ پیش نہیں آیا اور وہ اس بارے میں پھیلائی جانے والی جھوٹی معلومات کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہتے ہیں۔متاثرہ طالبہ اور اس کے والدین نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہیں اس واقعے میں ملوث کرنے والے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
اس معاملے میں غلط معلومات اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف انکوائری کے لیے ایف آئی اے نے سائبر کرائم سیل کی 7 رکنی کمیٹی بھی قائم کی ہے، تاکہ اس واقعے کی حقیقی صورت حال کا پتہ لگایا جا سکے۔یہ رپورٹ حکومت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کے عزم کی عکاسی کرتی ہے اور اس واقعے کے تمام پہلوؤں کا جامع جائزہ لینے کی کوشش ہے۔

Comments are closed.