پنجاب سے سوات تک .تحریر ارم رائے
حصہ اول
پاکستان کو الله نے خوبصورت رنگوں سے مزین کیا ہے چاروں موسم پاکستان کے پاس تو پہاڑ ریگستان اور میدان اسکے پاس۔ ہر علاقے کی اپنی خوبصورتی اور اہمیت۔ پاکستان کا جتنا حسن میدانوں اور ریگستانوں میں ہے۔ اس سے کہیں زیادہ سرسبز پہاڑوں میں ہے۔ ملکہ کوہسار مری چلے جائیں گلیات چلے جائیں ناران کاغان چلے جائیں یا سوات ہر جگہ خوبصورتی ہی خوبصورتی بکھری ہوئی ہے۔ کہیں درختوں کے جھنڈ ہیں تو کہیں بہتی آبشاریں ان آبشاروں کا ٹھنڈا پانی جسطرح سکون دیتا ہے اسکا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جب بظاہر سخت پہاڑوں کے بیچ سے جو آبشار پھوٹ رہی ہوتی ہے بے ساختہ زبان پر الله کی بڑائی آ جاتی ہے۔ بیشک کس خوبصورتی سے سجایا ہے ان پہاڑوں کو۔ بہت سے علاقے زمین پر جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ اس جنت نظیر وادیوں تک پہنچانے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں قابل زکر ہیں ان علاقوں میں آرام دہ سڑکیں بنانا روڈ بنانا کوئی مذاق یا کھیل نہیں ہے۔ ان علاقوں میں ویسے تو برفباری کے موسم میں بھی سیاح جاتے ہیں اور اس موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن گرمیوں میں گرمی سے بچنے کے لیے بہت بڑی تعداد نا صرف بیرونی ممالک سے بلکہ پاکستان کے اندر سے جاتی ہے۔ ان پہاڑوں آبشاروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتی ہے اچھی یادیں جمع کرتی ہے اور لوٹ آتی ہے۔ گوکہ ان علاقوں کے مقامی لوگوں کی زندگی کافی مشکل ہے لیکن آنے والوں کی زندگی آسان بنا دیتے ہیں اور یہ بہت بڑی خوبی ہے جو وہاں کے لوگوں میں دیکھی ہے۔ مری گلیات جانے کے بعد اس دفعہ ہم لوگوں نے بھی ناران کاغان یا سوات جانے کاپروگرام بنایا۔ ادھی فیملی ناران کاغان کے لیے جانا چاہتی تھی اور آدھی میرے سمیت سوات۔ سوات جانے سے گھبرانے والوں کا خیال تھا کہ حالات بظاہر ٹھیک ہیں لیکن فیملیز کے لیے ابھی بھی محفوظ نہیں ہیں جبکہ ہم جو پرو پی ٹی آئی تھے یہ کہتے تھے کہ اب حالات ٹھیک ہیں اور ہم سوات ہی جائیں گے۔
یوں قرعہ فال سوات کے لیے یعنی ہماری خواہش کے لیے نکلا ہم تقریباً 25 افراد جن میں 10 بچے بھی شامل تھے 15 جولائی 2021 کو سوات کے لیے نکلے۔ کچھ دیر بھیرہ انٹر چینج پر ریسٹ کے بعد تقریباً 12بجے سوات کے لیے روانہ ہوگئے راستے میں کہیں بھی نا رکتے ہوئے ہم بذریعہ موٹر ویے سوات پہنچے۔ سچ پوچھیں تو ڈر بھی لگ رہا تھا کہ ضد کی تو ہے اگر خدانخواستہ کچھ مسلہ ہوا تو بہت برا ہوگا۔ لیکن سوات سے گزرتے ہوئے خوشگوار حیرت ہوئی جب تعلیمی ادارے دیکھے۔ لڑکیوں کے سکول دیکھے کالجز یونیورسٹی کا کیمپس دیکھا۔ میڈیکل کالج دیکھا۔ نارمل زندگی دیکھی سکون اترا دل و دماغ میں صبح 6 بجے تک ہم مینگورہ پہنچ گئے تھے۔ اپنے ہوٹل گئے جہاں کی بکنک کروائی ہوئی تھی تھوڑی دیر ارام کیا پھر ناشتے کے لیے نکلے۔ قریب ہی سے ناشتہ کیا اور حیرانکی کے ساتھ بل ادا کیا کیونکہ انتہائی مناسب ریٹ پر ناشتہ کیا تھا۔ مری والی مہنگائی نہیں تھی۔ مینگورہ میں گرمی بہت تھی ویسے جیسے سرگودھا اور باقی شہروں میں ہوتی ہے۔ لیکن وہ دن ہم نے مینگورہ میں ہی گزارہ پارک گٰے ٹکٹس لیے اور داخل ہوگئے ویسے وہ فیملی پارک تھا لیکن ماحول اتنا مناسب نہیں لگا۔ لوگوں کا گھور کے دیکھنا تھوڑا عجیب لگا لیکن شاید اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی خواتین اور لڑکیاں مکمل پردہ میں تھیں اور ہم لوگ ایسے نہیں تھے۔
بچوں نے جھولے لیے بہت انجوائے کیا اور ہم لوگوں نے بھی۔ بس ماحول کی وجہ سے تھوڑی کنفیوژن رہی اگر وہ بھی بہتر بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔ وہاں سے نکل کر جھیل پر گئے تو گرمی کی شدت کا احساس کم ہوا وہاں بچوں بڑوں سب نے خوب انجوائے کیا۔ کچھ کھانے پینے والی چیزیں پاس تھیں بوتلیں لیں اور وہاں کافی وقت گزارہ۔ کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ سب کچھ بہترین تھا۔ کافی وقت گزرنے پر پھر بھوک محسوس ہوئی اور تھکن بھی تو واپس ہوٹل آئے۔ راستے میں سب سے مزے کا واقعہ ہوا ہم لوگ تھوڑا تھک گئے تھے تو سوچا کوئی شارٹ کٹ مل جائے واپسی کے لیے۔ ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ کسی عام ادمی سے نہیں پوچھتے بلکہ پولیس والے سے پوچجتے ہیں وہاں ایک بہت خوبصورت لمبا چوڑا پولیس والا کھڑا تھا اسکو بلایا اور پوچھا اب خیال یہ تھا کہ شاید پانچ سو ہزار لے کر ہمیں کسی پتلی گلی کا بتا دےگا جو سیدھی ہوٹل تک جاتی ہوگی لیکن اس نے کہا ” زیادہ تیز بننے کی کوشش نا کرو تہذیب کے ساتھ باہرو باہر نکل کر ہوٹل جاؤ بڑی گاڑی شہر کے اندر سے نہیں جا سکتی ” یوں پھر ہم باہر و باہر سے ہی ہوٹل تک پہنچے۔تھوڑا فریش ہوئے اور پھر کھانے کے لیے چلے گئے۔ وہاں کھانا کھایا اور واپس ہوٹل آگئے مینگورہ میں سب سے متاثر کن چیز ریٹس تھے اور مقدار۔ مطلب مقدار اور معیار پر تو سمجھوتہ نہیں تھا لیکن ریٹ بھی بہت مناسب تھا اور لوگ بہت مہمان نواز تھے۔ کھانے کے بعد واپس ہوٹل اگئے تاکہ اگلے دن نئے سفر کالام کے لیے تازہ دم ہوکر سفر کے قابل ہوسکیں۔۔
جاری
@irumrae