پنجاب سے سوات تک .حصہ سوم .تحریر: ارم شہزادی
"کارگل جھیل” خوبصورت نام خوبصورت جگہ اور ٹھنڈا پانی جو روح تک کو تازگی بخشے۔ اگر ہم مری ایبٹ آباد میں جائیں کسی آبشار پر یا جھیل پر تو کولڈ ڈرنک تو دور کی بات سادا پانی اتنا مہنگا ہوتا کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ یہاں مجھے پیاس لگی تو چھوٹے سے بنے کھوکھے پر گئی پانی کہا تو گلاس میں دینے لگے کولر سے، میں نے کہا منرل چاہیئے تو بوتل پکڑائی جو کہ میرے خیال میں 150 تک کی ہونی تھی لیکن اس نے 80 روپے لیے ساتھ ڈسپوزیبل گلاس لیے اور سو میں یہ ہوگیا جو کہ ایسی جگہ پر ناقابل یقین تھا۔ خیر واپسی ہوئی اسی بچے صابر نے ایک ویگن ٹائپ روک دی تاکہ بچوں کو اور چھوٹے بچوں والی ماؤں کو بیٹھا کے بھیجا جا سکے۔ اور ہم باقی لوگ پیدل ہی واپس آئے۔ جیسے ہی ہم لوگ مسجد کےپاس پہنچے تو مسجد بند تھی اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صابر نے کہا وہ سامنے ہمارا گھر ہے آپ ادھر اجائیں ہماری تقریباً دس بچیاں گئی انکے گھر جب کافی دیر ہوئی تو مجھے پریشانی لاحق ہوئی کہ ابھی تک واپس نہیں آئیں کہیں یہاں سے گئیں افغانستان کی کسی سرنگ سے ہی نا برامد ہوں میں گئی تو دیکھ کر حیران رہ گئی صابر کی ماں اور بہنیں باتیں کررہی تھیں اور ساتھ کھانا اور چائے کے لیے ضد کررہی تھیں یہ لوگ پھر معذرت کرتے واپس آئے کہ ان شاء الله دوبارہ آٰے تو ضرور ائیں گے۔ صابر کا چھوٹا سا لیکن بہت خوبصورت گھر تھا۔ وہاں چائلڈ لیبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی وہاں سب محنت کرتے ہیں بچے بڑے بوڑھے اور گھر کی خواتین گھر کو بہت خوبصورت انداز سے سمبھالے ہوئے ہیں۔
واپسی پر ایک چھوٹی سیدوکان کے بایر ہم بیٹھ گئے دوکاندار نے ہمیں کرسیاں لگا دیں اور ہم وہاں بیٹھ کر ٹھنڈے پانی اور جوس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ صابر وہاں بھی ہمارے ساتھ تھا اور اسکا وہ آخری جملہ مجھے شرمندہ کرنے کے لیے بہت تھا۔ جب ہم نے اسے پیسے دینے چاہے تو اس نے لینے سے انکار کردیا حالانکہ اپنے نشانہ بازی کے پورے لیے تھے۔ لیکن یہ ہم نے ویسے ہی دیے تھے کہ اتنا وقت ہمارے ساتھ رہے اور کام کرتے رہے یہاں تک کہ گھر بھی لے گئے۔ کہتا ہے یہ گناہ ہوتا ہے ہم پیسہ نہیں لےگا یہ تو ہم ہر حرام ہے آپ ہمارا مہمان ہے اور مہمان نوازی کا پیسہ نہیں ہوتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر وہ باضد رہا پھر ہم نے اس سے وعدہ کیا کہ دوبارہ جب بھی آئے تمہارے گھر ائیں گے اور کھانا بھی کھائیں گے۔ اسکے ساتھ تصاویر پھر جا کر اس نے کہیں ہم سے پیسے لیے اور پھر جتنی دیر ہم وہاں رکے رہے وہ شرمندہ شرمندہ سا سر جھکائے کھڑا رہا۔ اتنا پیار ارہا تھا اس بچے پر۔ اسکی تربیت کرنے والی ماں پر۔ کتنا بڑا دل اورظرف ہے ان لوگوں کا۔ کیسے انکے بازو کھلے ہیں مہمانوں کے لیے۔ میں اپنے رویہ پر بہت شرمندی تھی کہ ہم کیا سمجھے اور وہ کیا نکلے۔ لیکن اسکے بعد میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ اب شک نہیں کرنا ہے۔ بے لوث محبت کرنے والوں کی قدر کرنی ہے۔ واپس "اوشو” جنگل میں رکے رہے کافی دیر بچوں نے گھڑ سواری کی تصاویر بنائیں سلومو بنائے میوزک لگا کر ارتغرل کو یاد کیاگیا۔
اونٹ والا اپنی بےوقوفی اور ضد کی وجہ سے کچھ نا کما سکا جبکہ گھوڑے والے نے اچھا خاصہ کمالیا۔ ڈولی جھولے لیے ۔گنے کی روہ پی اور واپسی ہوئی۔ کچھ دیر سستانے کے بعد کھانے کے لیے گئے "لاروش” کچھ اسی ٹائپ کا نام تھا کھانے کا ارڈر کیا تو بارش شروع ہوگئی کافی تیز بارش وہیں بیٹھے بیٹھے انجوائے کی جیسے بارش رکی ہر منظر بہت خوبصورت تھا اتنا شفاف دھلا ہوااور آسمان کی نیلاہٹ نے اسکی خوبصورتی میں مزیدچار چاند لگا دیے۔ گھاس نہا کر فریش ہوگئی تھی۔ کھانا حسب معمول بہت مزیدار تھا۔ ہر چیز کا زائقہ مختلف تھا۔ دال سے لے کر کڑاہی تک کابلی پلاؤ سےلے کر ہانڈی تک۔ یہاں بھی بل مناسب تھا۔ ادا کیا اور راستے سے ائس کریم کھاتے ہوئے لوٹ آئے۔ تھکن اور نیند سے برا حال تھا جبکہ ابھی ایک پڑاؤ مالم جبہ کاباقی تھا جس کے لیے صبح سویرے جانا تھا اس لیے ضروری سامان الگ کر کے اور باقی سامان بیگ کی صورت بنا کر ایک طرف رکھ کے سوگئے۔
جاری