قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا مقصد : علی چاند
انتہاٸی پروقار ، دلفریب ، بلند حوصلہ ،جرأت مند ہستی ، جو نہ کبھی کسی کے آگے جھکے ، نا کبھی ہمت ہاری ، نہ کبھی حوصلہ کم ہوا ، جس بات پر ڈٹ گٸے اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے ،اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ پروقار انسان ایسا بہادر ، قوی ، جرأت مند نکلا کہ مسلمانوں نے ان کی قیادت میں صرف چند ماہ میں ہی پاکستان جیسا عظیم ملک بنا لیا ۔
کون جانتا تھا کہ 25 دسمبر 1876 کو پونجا جناح کے گھر پیدا ہونے والا بچہ ایک دن اپنا نام اتنا روشن کرے گا کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے جیتی جاگتی زندہ مثال بن جاٸے گا ۔ لوگ غلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے اس عظیم انسان کی مثالیں دیں گے ۔ کون جانتا تھا کہ مظلوموں کو آزادی دلوانے والے اس عظیم لیڈر کو اپنا راہنما اور مشعل راہ سمجھیں گے ۔
قاٸد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو ایک تاجر پونجا جناح کے گھر پیدا ہوٸے ۔ والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جس کے اثرات پھر پوری دنیا نے دیکھے ۔ والدین نے چھ سال کی عمر میں آپ کو مدرسے میں داخل کروا دیا ۔ پراٸمری تعلیم کے لیے آپ کو گوگل داس پراٸمری سکول میں داخل کروایا گیا ۔ میٹرک کا امتحان آپ نے اعلی نمبروں کے ساتھ سندھ مدرسة السلام ہاٸی سکول سے پاس کیا ۔ 1892 میں آپ نے وکالت کا امتحان پاس کیا ۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گے اور بیرسٹر بن کر واپس آٸے ۔ پہلے آپ نے کراچی اور پھر ممبٸی میں وکالت کر کے بہت نام کمایا ۔ آپ کو سیاست سے بہت دلچسپی تھی ۔ شروع میں قاٸد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اس لیے آپ نے 1906 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی ۔ کچھ مسلمان راہنماٶں نے آپ کومسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اور آپ کو اس پر راضی بھی کر لیا بالآخر آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ۔ 1913 میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔ مسلم لیگ پہلے صرف بڑے لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی تھی لیکن آپ کی مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد لوگ اسے عام مسلمانوں یعنی اپنی جماعت سمجھنا شروع ہوگے ۔
1929میں قاٸداعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کٸیے جو درج ذیل ہیں :
ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی نوعیت کا ہو گا۔
تمام صوبوں کو مساوی سطح پر مساوی خود مختاری ہو گی۔
ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبہ میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبہ میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تسلیم نہ کیا جائے۔
مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔
ہر فرقہ کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی سکیم عمل میں نہ لائی جائے جس کے ذریعے صوبہ سرحد، پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔
ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔
سندھ کو بمبئی سے علاحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا دیا جائے۔
صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
یہ چودہ نکات تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حثیت رکھتے ہیں ۔ 1940 میں لاہور منٹو پارک ( موجودہ نام اقبال پارک ) میں ایک قرار داد پیش کی گٸی جسے قرارد داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے اس قرار داد میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا ۔ ہندوٶں اور انگریزوں کی طرف سے اس قرارداد کا بہت مذاق اڑایا گیا لیک مسلمان ارادے کے پکے اور ایمان کے سچے تھے انہوں نے قاٸد اعظم جیسے عظیم لیڈر کی راہنماٸی میں 14 اگست 1947 کو مسلمانوں نے الگ وطن حاصل کر لیا ۔ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ قاٸد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی آباد کاری ، پاکستانی معیشیت اور اداروں کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی جس کی وجہ سے آپ بہت زیادہ علیل ہوگے ۔
آپ کو ڈاکٹرز کے مشورے سے زیارت کے مقام پر بھیج دیا گیا تاکہ آپ کی صحت کچھ سنبھل سکے ۔ لیکن آپ کی صحت جواب دیتی جارہی تھی ۔ 10 ستمبر کو کرنل الہی بخش نے قاٸد اعظم کی صحت کے حوالے سے فاطمہ جناح کو جواب دے دیا ۔ اگلی صبح قاٸد اعظم کو کوٸٹہ سے کراچی اٸیرپورٹ لایا گیا ۔ وہاں سے ایک ایمبولینس میں آپ کا سٹریچر رکھا گیا ۔ ایمبولیس میں آپ کی بہن فاطمہ جناح بھی بیٹھ گٸی ۔ جب ایمبولینس مہاجروں کی ایک گنجان آباد بستی سے زرا آگے پہنچی تو ایمبولینس چلنا رک گٸی ۔ فاطمہ جناح کو بتایا گیا کہ پیٹرول ختم ہوگیا ہے ۔ ایک گھنٹہ بعد دوسری ایمبولینس آٸی اور پھر قاٸد اعظم کو دوسری ایمبولینس کے ذریعے قاٸد اعظم گورنر ہاٶس پہنچایا گیا جہاں انہوں نے کلمہ پڑھتے ہوٸے اپنی جان خالق حقیقی کے حوالے کر دی ۔
کیا ایمبولینس کا واقعی پیٹرول ختم ہوا تھا یا پھر یہ بھی ایک سازش تھی ۔ اگر پیٹرول واقعی ختم ہوا تھا تو کیا ایمبولینس روانہ کرتے وقت چیک نہ کیا گیا تھا ۔ کیا کوٸی اس قدر احمق بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے محسن کی حالت کو جانتا ہو پھر بھی ایسا کرے ۔ اور اگر یہ ایک سازش تھی تو قاٸد اعظم اور پاکستان کے ساتھ غداری تھی ۔ دونوں صورتوں میں کیا کبھی کسی نے اس سازش کے پیچھے چھپے چہرے تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ کیا کسی نے ان چہروں کو بے نقاب کر کے انہیں سزا دلوانے کی کوشش کی ۔ اگر نہیں تو کیا ہم ایک بے حس قوم نہیں ہیں جنہوں نے اپنے عظیم لیڈر کے احسانات کو بھلا دیا اور کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر کون لوگ تھے جو پاکستان سے دشمنی میں اس قدر آگے نکل گے کہ انہوں نے قاٸد اعظم کی جان کی پرواہ بھی نہ کی ؟
کیا ہم میں سے کوٸی اس بہن کا درد محسوس کر سکتا ہے جس کے بھاٸی کو ڈاکٹرز جواب دے چکے ہوں اور اس ایمبولینس کو جان بوجھ کر روکے رکھا گیا ہو جس میں ایک بہن کے سامنے اس کا بھاٸی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہو ۔ جو کہتے ہیں پیٹرول ختم ہو گیا تھا ،ان کی عقل کو داد دیں یا پھر اپنی قوم کی بے حسی کو ۔ اگر پٹرول ختم ہوگیا تھا تو گنجان آبادی قریب تھی وہاں سے کسی گاڑی کا انتظام کیوں نہ ہوا ۔ اس آبادی سے کسی کی گاڑی سے کہیں سے بھی پٹرول مل سکتا تھا پھر ایک گھنٹے تک کیوں اس بہن کو اذیت میں رکھا گیا جس کے بھاٸی نے اپنی بہن کے ساتھ اپنی تمام تر زندگی اس وطن کے نام کر دی ۔ آخر کیوں کون سے وجوہات تھی کہ ہم نے باباٸے قوم اور مادر ملت کو اذیت دینے والوں کے گریبان نہیں پکڑے ۔ آخر کیوں ہم اتنے بے حس ہوگے کہ محسن پاکستان محمد علی جناح کے ساتھ ان کی بہن کے ساتھ ایسا ظلم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا ۔ وہ بہن جو مادر ملت تھی کہتی ہیں زندگی میں جتنی بھی مشکلات آٸیں یہ ایک گھنٹہ ان سب مشکلات سے بھاری تھا ، تکلیف دہ تھا ۔ آخر کیوں اس بات کو جاننے کی کوشش نہیں کی گٸی کہ آخر کون تھا جس پر قاٸد اعظم کی سانسیں باعث تکلیف تھی ، آخر ایمبولینس کو جان بوجھ کر روکنے میں کسی کا کیا فاٸدہ تھا ؟ ہمیں بحثیت قوم ان حقاٸق کو جاننا ہوگا ۔ ان کالی بھیڑوں کو ڈھونڈنا ہوگا جو تب سے لے کر آج تک وطن پاکستان اور اس سے جڑے ہر مخلص انسان کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔