اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی حفاظت کے ترمیمی بل 2022 پر تفصیلی بحث ہوئی۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس اجلاس میں صحافیوں کی تعریف اور کمیٹی چیئرمین کی مدت ملازمت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے نمائندوں نے شرکت کی۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ صحافتی تنظیمیں اور سٹیک ہولڈرز بل کے متن سے لاعلم ہیں اور صحافیوں کی تعریف پر خدشات کا اظہار کیا۔ سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ بل میں تکنیکی سٹاف کو بھی صحافیوں میں شامل کیا گیا ہے، جس پر کمیٹی نے صحافی کی تعریف میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ جنسی رحجانات کا صحافتی معیار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر کمیٹی نے جنسی رحجانات کی شق کو بل سے نکالنے کی سفارش کی۔ پی ایف یو جے کے نمائندوں نے صحافیوں کی تعریف کے حوالے سے مختلف قوانین کی موجودگی کا حوالہ دیا اور بل میں موجود شقوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ترمیمی بل میں کمیشن کے چیئرپرسن کی مدت ملازمت 3 سال مقرر کی گئی ہے جس میں ایک سال کی توسیع دی جا سکے گی۔ تاہم، صحافتی نمائندوں نے چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے اس شق کو ختم کرنے کی سفارش کی۔ حامد میر نے کہا کہ ایکسٹینشن نے ملک کو نقصان دیا ہے اور اس پر پابندی لگائی جائے۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے کمیشن کی جانب سے قید کی سزا دینے کی شق ختم کرنے کی سفارش کی، جبکہ مالی جرمانہ کی شق کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ ہتک عزت قانون پر بھی بحث ہوئی۔سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال کیا کہ قانون صوبائی اسمبلی نے منظور کیا ہے، کیا ہم صوبائی اسمبلی کے معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے سینیٹ کمیٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے قانون پر بحث کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم ایک صوبے کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ صحافیوں کے حقوق کے لیے کمیشن پرانے قانون کے مطابق بھی موجود ہے اور نئے ترمیمی بل میں کمیشن کے چیئرپرسن کی کوالیفیکیشن متعین کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اجلاس میں صحافیوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اس اجلاس میں ہونے والی سفارشات اور تجاویز کو حتمی شکل دینے کے بعد سینیٹ میں پیش کیا جائے گا تاکہ صحافیوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔








