آئیے خیال کی طاقت سے ذہن کے چراغ جلائیں، لفظوں کی شیرینی سے زبان کی کڑواہٹ مٹائیں
قلم و کتاب کی زبان سے ادب کی دعوت
تحریر: ظفر اقبال ظفر
تحریر کی نبض پر ہاتھ رکھ کے قلم کے مزاج کا پتا لگانا حقیقی لکھاری و قاری طبیب کا ہی خاصہ ہے جو دل و دماغ کی سواری پہ کتابوں کے جہانوں کے سفر پہ نکلے ہیں اور اپنے احساسات و محسوسات کی الہامی کیفیت سے شفا بخش ادبی بوٹیوں کی کھوج لگاتے ہیں، پھر اسے اپنے قلم کے حمام دستے میں پیس کر عام ذہنوں کے معدے تک پہنچاتے ہیں تو شعور کی بینائی بڑھنے لگتی ہے۔ خداداد صلاحیتوں کے ہنر سے لکھی تحریریں قارئین کے ذہنوں کو مسحور کرتی ہیں۔ قدرت کے جس جہان کی لکھاری سیر کرکے اسے اپنی تحریر کے اسلوب سے لطف اندوز بناتا ہے اُسے پڑھنے والے قاری کو لگنے لگتا ہے کہ وہ اُس دور اور جہان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ سحر نگار قلم کی لکھی کسی کتاب کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ ذوق و شوق سے لبریز شغف قارئین ہی قلم کے نئے زاویے میں پوشیدہ منظروں کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ علم و شعور کی زمین لکھاری و قاری جیسے پھولوں سے سدا آباد رہتی ہے جس کی مہک نے ان گنت خوش نصیبوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔
ادب کی مٹی میں قلم کا بیج نئی اور تازہ تحریروں کے پھل اُگاتے رہتے ہیں۔ سخن کے وطن میں پل کر پروان چڑھنے والے، اپنے سے پہلے دور میں جینے والے لکھاریوں سے ان کی کتاب و تحریر کے ذریعے ملاقاتیں کرتے ہیں جس سے لکھاری ذہن تربیت پاتے ہیں تاکہ اُن کی نشاندہی کرتے راستوں پہ سفر کرتے مطالعے کی مدد سے نئی منظر کشی کو تحریری وجود میں لایا جا سکے۔ قدرت کی خوبصورتیاں بیج کی طرح اپنے اندر اتنے وسیع درخت رکھتی ہیں جس کا ہر پتہ، ہر شاخ ان گنت معنی و منظر رکھتا ہے جیسے گنتی سے باہر ہوا کے جھونکے ہوتے ہیں۔ جب منظروں کی بوندیں ذہن کی پیاسی زمین پر ٹپک رہی ہوں تو بہار کی سیاہی سے قلم کو رنگین تذکرہ نگاری میں مدہوش کر دیجیے۔ یہ لطف اندوز لمحے اپنے وجود کی گرفت میں بھر کر محفوظ کر لیں تاکہ آپ کی تنہائی نایاب احساسات و محسوسات سے سجی رہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو اپنے آپ میں اک محفل لیے جیتے ہیں۔
یہ اعزاز لکھاری یا قاری کو ہی حاصل ہوتا ہے کہ ایک زندگی میں کئی زندگیوں کو جی رہا ہوتا ہے۔ کتابوں کی انگلی پکڑ کر تحریروں کے قدم سے اپنے شعور کے قدم ملا کر چلنے والوں کو ہی ایک انمول ہمسفر کا احساس ملتا ہے۔ آپ ادب کے ساتھ زندہ رہتے ہیں تو مبارک ہو، ادب اپنے زندہ رہنے کے لیے آپ کو چن چکا ہے۔ یہ سچائی و آگاہی کے کوہِ طور کا سرمہ آنکھوں میں لگا کر ہر جانب خدا کو دیکھنے اور دکھانے لگتے ہیں۔ یہ منفرد و نایاب لوگ اپنے چراغوں جیسے ذہنوں میں ادب کی روشنی لیے ویرانوں میں بیٹھے ہیں۔ انہیں ذہنی تصادم زدہ ہجوم کے اندھیروں میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کی قدردانی ہی ان کے جلتے رہنے کا تیل ہے۔ ادب ان کے ذریعے اپنے نت نئے رنگوں کی تبلیغ کرواتا ہے جو شرف والوں کے حصے میں آتی ہے۔
جہاں شعور کی کایا پلٹنے والی تحریریں قبولیت کے ہاتھ اُٹھائے بیٹھی ہیں، وہاں ادب کے طالب علم بھی شوق کے دامن پھیلائے بیٹھے ہیں۔ یہ کیفیت دل و دماغ کی زمینوں پر بسیرا کرکے اپنے عطر سے انسانیت کے گلشن کو معطر رکھتی ہے۔ قابلِ تعریف ہیں وہ عقلیں جو لفظوں کے چہروں سے پردے ہٹا کر معنی کے اصلی جوہر تک پہنچ جاتی ہیں اور اپنی آنکھوں کو وضاحتوں کا سرمہ لگا کر حقیقتوں کے دلکش نظارے کرواتی ہیں۔ اس نتیجے سے دوچار کرنے والی تحریروں کے لکھاریوں کے دل کی شگفتگی کا سرور انہیں ایسا مدہوش کرتا ہے جس کی ترجمانی وہ خود بھی قلم کی زبان پر نہیں لا پاتے۔ یہ قدرت کی خاموش تحسین کے انعام میں رہتے ہیں۔
زندگی کو آنکھ بھر کر سب دیکھنا چاہتے ہیں، مگر یہاں غیر معیاری حالات و معاملات زندگی کے رنگوں پر اپنی چادر ڈال کر میت کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ جہاں مصنوعی دُکھ ایجاد ہو جائیں، وہاں انسان غیر ضروری اُداس رہنے لگتے ہیں۔ پتھر کی عمارتوں میں سکون چاہنے والے جلتے جسموں کو کوئی بتا دے کہ چاندنی رات کے ستاروں کی چھاؤں میں خیمے لگا کر روح کی ٹھنڈک کا مزہ مفت میں لیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے اپنی مہنگی تخلیق اپنے انسانوں کے لیے مفت میں رکھی ہے۔ انسانی وجود کی بڑی قیمت ہے۔ اس مٹی کے کوزے میں نور کا چراغ جلتا ہے، اُس کوزے کو بے قیمت نہ جانیں جس میں قدرت نے اپنا نور محفوظ کر رکھا ہے۔ انسانی دل خدا کا تخت ہے، جس کے تختِ دل پر خدا بیٹھا ہو، وہاں زندگی ہاتھ جوڑے کھڑی رہتی ہے کہ زندگی سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ ہر جینے والے کو ادب اسی مقام پر لانا چاہتا ہے کہ بے مقصد سفروں پر خود کو تھکانے والوں کو درست سمت دی جا سکے اور بکھرے ہوئے انسانوں کو سمیٹ کر انہیں ہی واپس لوٹا دیا جائے۔ یہ حوصلہ ادب ہی پیدا کر سکتا ہے کہ آپ کسی کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر کہیں کہ دیکھو تمہارا قد تو مجھ سے بھی بڑا ہو گیا ہے۔ اچھا پڑھنے سننے کی صلاحیت کو اتنا پکائیں کہ آپ کی گفتگو سحر طاری کرنے لگے اور لوگوں کو دنیا کے پیچیدہ راستوں پہ چلنے کا ہنر حاصل ہو جائے۔ اپنے بعد آنے والوں کے لیے راہ کے کانٹے ہٹانے کا ذریعہ بن کر آسانیوں، بھلائیوں، بہتریوں کے اسباب چھوڑ کر ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے ٹھہرے رہیں۔
جب دنیاوی مفاد کی حکمتِ عملی میں لوگ سیاست کی ہتھیلیوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے صاحبِ اختیار کے پاؤں پکڑنے کو تیار ہو جائیں، تب ادب کمزوروں کے ہاتھ پکڑنے والوں کو دلوں کا تخت پیش کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ بے فیض سیاست کی نوک سے زندگی کے بخیے اُدھیڑنے والے ہر دور میں ادب انسانیت میں محبت کے ٹانکے لگاتا رہتا ہے اور اپنے چاہنے والوں کو یہ ہنر سکھاتا ہے کہ وہ کڑواہٹ پی کر مٹھاس کیسے بانٹ سکتے ہیں۔ دراصل قدرت کی تخلیق، احساسات، محسوسات، جذبات کی حسین عکاسی سے انسانی ذہنوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر جینے کے حقیقی لطف سے ہمکنار کروانے میں قلم کا ہاتھ ہے، اور عزت، محبت، نام اُس کا بھی پیدا ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے۔ جس طرح خواب بند آنکھوں سے اگلے پچھلے دور کی سیر کرواتے ہیں، اسی طرح کتاب کو یہ خاصیت حاصل ہے کہ یہ کھلی آنکھوں سے سیر کرواتی ہے۔ خدا کی طرف سے آنے والا ہر اچھا خیال سپردِ قلم کر دو کہ یہ وہ امانت ہے جو بے خبروں تک پہنچانی تمہارا فرض ہے۔
انگریزی لالٹینوں کی روشنی دماغوں میں بھرنے والوں سے معاشرے کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ ایسے میں مادری و قومی زبان کے سورج کو طلوع کرنے کے لیے ادب کے فروغ کو عام کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ ایک ہی معاشرے میں زندگی بسر کرنے والوں کے مسائل بھی ایک ہی جیسے ہیں، اس کے لیے انفرادی طور پر پریشان رہنے کی بجائے اجتماعی طاقت سے خوشحالی لانے کے لیے ادب سے بہتر طاقت اور کہیں سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ فرقہ و جماعت پرستی کے اس تقسیم شدہ معاشرے کو جوڑنے کے لیے اسلام کی بات ادب کی زبان سے کی جائے تو ہر کان خوشی سے قبول کر لے گا۔ کون سی بات کب، کہاں اور کیسے کہی جانی ہے، یہ سلیقہ اگر آ جائے تو ہر بات سنی جاتی ہے۔ اسی سلیقے کو سکھانے کے لیے ادب کی درسگاہوں کا قیام بہت ضروری ہے جہاں کتابوں کے حصار میں نئی سوچیں پروان چڑھیں۔ وہ لوگ جو انقلابِ زمانہ سے دل شکستہ ہو کر تصنیف کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، ان کے اندر اعتماد و حوصلے بھرنے کے لیے سامعین اور اسٹیج کا ماحول مہیا کیا جائے۔
دل کا درد لفظ و لہجے میں اتار کر کانوں میں انڈیل دیجئے، تحریک جنم لے لے گی۔ اس طرح لکھیں کہ لوگوں کی بولتی چالتی، چلتی پھرتی زندگیوں کی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں اور وہ اپنے عیب آپ دیکھ کر خود ہی اصلاح کر لیں۔
برج بھاشا سے نکلی آٹھ سو سال سے زائد عمر کی یہ اردو زبان کتنے ذہن اور کتنے زمانے دیکھتی آ رہی ہے۔ اس کے پاس کیا کیا داستانیں، حالات و واقعات ہیں، انہیں بیان کرنے کے لیے اسے تذکرہ نگاروں کی ضرورت ہے جو گزرے اور آنے والے وقت کے عکس موجودہ دور میں دکھانے کی خاصیت رکھتے ہوں۔ آپس میں ہی ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے والے ذہنی غربت میں مبتلا معاشرے کے پتھر دلوں کو کھود کر حسنِ سلوک کے ہیرے، موتی، جواہرات نکالنے کے لیے ادب نے آسان طریقے بتا دیے ہیں۔ ادب کی ہر کتاب و تحریر وہ گٹھلی ہے جو روح میں مٹھاس بھرنے والے لذیذ میوے کی خبر دیتی ہے۔
ادب روح پر پڑے بدبودار غرور و تکبر کے لباس اتروا کر فقیری و درویشی کے خوشبودار ٹاٹ پہناتا ہے۔ جہاں جہالت انسانی ذہن کو اپنی ہی ذات کی قید میں جکڑے رکھتی ہے، وہاں ادب شعور کی رہائی لے کر ضمیر کے جج کے سامنے ہر وقت حاضر رہتا ہے۔ ادب وہ زبانِ الٰہی ہے جسے بولنے والوں نے انسانیت کی معراج پائی۔ اسی لیے ہر اچھی بات کو صدقے کا مقام حاصل ہے۔ ادب کی پاکیزہ زبان، گفتگو کی مہک سے معاشرے کے ذہنوں کو معطر کرتی ہے۔ اسی لیے ہر انسان کی قیمت کو اس کی زبان تلے رکھ دیا گیا ہے۔ گنہگار سے گنہگار لوگوں نے بھی اپنی باتوں کو ادب کا آبِ حیات پلا کر اپنے بعد بھی اپنے تذکرے چھوڑ دیے۔ کسی کی بات کو اپنی بات بنا کر پیش کرنا غیر معمولی مقام تو نہیں ہے، انبیاء اکرام نے جس طرح آسمانی علوم پر مذہب کے چوکیدار بن کر اپنے عمل کے ذریعے ملاوٹ سے پاک رکھ کر آنے والی نسلوں کو سونپا، اس سے وہ انسانیت کے جہان میں ہمیشہ کے لیے باقی رہ گئے۔
پھر جس طرح فقیری درویشی مزاج کے لکھاریوں نے آسمانی علوم کو زمین پر اس طرح بکھیرا کہ ہر مذہب کا انسان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ انسانیت کو جوڑنے کے لیے ادب کا یہ کرشمہ کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ اسی لیے اسلام کے ترجمانوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے تاکہ تم حق سے متفق رہنے والوں میں شمار رہو۔ ادب آتش بیانی کی مخالفت کرکے اپنی بات دھیمے اور شیریں لہجے میں دلیل کی پلیٹ میں رکھ کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا تمہارا ہو جائے۔ خدا کی قدرت کہوں یا معاشرے کے حسن کی ذمہ داری نہ لینے والوں کی کمزوری، کہ یہاں جو لونڈی ہے وہ رانی بن بیٹھی ہے اور رانی منہ چھپائے کونے میں بیٹھی ہے۔ زبان کا اثر زبان پر دوڑنا شروع ہو جائے گا۔ آپ اپنی زبان میں ہی سہی، علوم ادب کے کتب خانے بڑھائیں، فنون کے کارخانے چلائیں، ایجاد کی ٹہنی پہ ظرافت کے پھول کھلائیں تاکہ نئی نسلیں باوقار انسانیت کا گلشن تشکیل دے سکیں۔