غنڈوں بدمعاشوں کو عام طور پر ”زندہ فرعون“ کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن بیوروکرویسی میں حکمرانوں کی جی حضوری اور اٹھائی گیری میں زمین و آسمان ایک کرکے خود کو قانون سے بالا تر اور ماورائی مخلوق بن کر کرپشن، قانون شکنی اور فاشزم کی انتہا کرنے والے یہ تگڑے افسر جو اپنے قبیل کے سنئیر افسران کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ان کیلئے "سرکاری فرعون” اور "آن ڈیوٹی ڈریکولا” کی ٹرمز استعمال کی جاتی ہیں۔ ان زندہ و حاضر سروس فرعونوں کے سامنے کوئی نہیں بولتا لیکن جب یہ زمینی خدا ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو پھر ساتھی افسران ان کی ریکارڈ توڑ کرپشن، لاقانونیت اورفرعونیت کی داستانیں زبان زدعام کرتے ہیں اور کچھ کتابیں لکھ دیتے ہیں لیکن دوران سروس ان کی شر سے بچنے کیلئے کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرتے۔ دیر آید درست آید کے مترادف یہ سارے کردار تاریخ میں ایک بدنما داغ اور گالی بن کر رہ جاتے ہیں۔

اگر میرٹ کی بات کی جائے تو سرکاری ملازم کسی سیاسی جماعت کا ورکر نہیں ہوتا جس کی مرضی حکومت آئے انہوں نے اپناکام کرنا ہے لیکن حقیقت اس کے متصادم ہے یہاں وہی افسر کامیاب ہے جو عوامی فلاح و بہبود کی بجائے سیاسی اور حکومتی نوکری کیلئے خود کو وقف کر دے۔
سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے کچھ کو بزدار اور پی ٹی آئی سے نتھی کرکے کے کھدے لائن لگا دیا گیا ہے تو کچھ کو پرموشن سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے جبکہ موجودہ سیٹ اپ میں اہم سیٹوں پر بیٹھے سارے بزداریے ہیں جو بزدار کے پی ایس او، سی ایس او، اسکے ہوم ٹاؤن کے مجاور خاص بن کرگئے تھے وہی افسران آج نئے دربار کی مجاوری کر رہے ہیں۔ ان کی واحد قابلیت اٹھائی گیری میں چیمپئن ہونا ہے، آٹھ سنئیر افسران کے سامنے ٹشو سے بزدار کے جوتے صاف کرنے والا بھی موجودہ حکومت میں فٹ ہوگیا تھا۔

آج تک ہم سپر ہیروز کی کہانیاں سنتے تھے یا فلموں اور ڈراموں میں ہی دیکھتے تھے کیونکہ ان کرداروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بیوروکریسی کے کماؤ پتر اور لاڈلے افسران کو بھی سپر ہیروز بنا کر پیش کیا جاتا ہے کسی کو جونئیر گریڈ میں ڈی جی، ایم ڈی، سی ای او، پی ڈی اور سیکرٹری لگا دیا جاتا ہے تو کسی کو دو سے تین اضافی چارج دے کر سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں حکومت پنجاب کی طرف سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں مینشن تھا کہ صوبائی سروس کے دو افسران کو اس لیے عہدوں سے ہٹایا جارہا ہے کہ یہ این ایم سی کیلئے اہل ہوجائیں۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی باقی سارے افسران اہم ترین سیٹوں پر موجود ہیں اور این ایم سی کیلئے اہل بھی ہوگئے سارے قانون صرف صوبائی سروس کے افسران کیلئے؟

گریڈ بیس سے گریڈ اکیس میں ترقی کیلئے ناگزیر کورس این ایم سی کرنے والے ہر افسر کیلئے بائیس لاکھ روپے کی خطیر رقم حکومتی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔
گریڈ بیس سے گریڈ اکیس کیلئے نیشنل مینجمنٹ کورس، گریڈ انیس سے گریڈ بیس کیلئے سنئیر مینجمنٹ کورس اور گریڈ 18سے گریڈ 19 کیلئے مڈ کیرئیر مینجمنٹ کورس تقریباً چار ماہ پر مشتمل ٹریننگ کورسز ہیں۔
اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے والے افسران ٹریننگ کیلئے ہرگز راضی نہیں ہوتے۔ اچھی سیٹ پر موجود افسران ٹریننگ سے بچنے کیلئے زور لگا رہے ہوتے ہیں۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہے انڈے دے یا بچے کے مترادف تین دفعہ ٹریننگ کورسز چھوڑنے کی گنجائش موجود ہے سونے پر سہاگہ کہ کمپیٹنٹ اٹھارٹی کی درخواست پر ٹریننگ سے جتنی دفعہ مرضی نام نکلواتے رہیں وہ چانس ضائع کرنا کنسڈر ہی نہیں ہوگا۔ ٹریننگ پر صرف وہی جانا چاہتا ہے جو ”اوایس ڈی” ہو یا پھر کسی کھڈے لائن پوسٹنگ تو وہ سوچتا ہے ویلا بیٹھا ٹریننگ ہی کر لوں۔

لاقانونیت اور لاڈلے پن کی انتہا کا یہ لیول ہے کہ سفارشی اور تگڑے افسران صرف اس شرط پر ٹریننگ کرتے ہیں کہ انکی پوسٹنگ ساتھ رہے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بغیر ٹریننگ کہ تم سے کام ہو نہیں رہا ہوتا اور اتنے تیس مار خان رہے کہ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ پوسٹنگ بھی چاہئے۔ قابلیت کے دعویداروں کا حقیقی حال یہ ہے کہ بہت سارے افسران دوران ٹریننگ رپورٹس اور اسائمنمٹ تک بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، رپورٹس، اسائمنٹس اور ریسرچ پیپر پیسے دے کر ایکسپرٹس سے بنوائے جاتے ہیں۔

دوران ٹریننگ پوسٹنگ ہولڈ کرنے والے لاڈلے تو خوش ہوجاتے ہیں لیکن عوامی فلاح و بہبود کے کام ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ سینکڑوں افسران او ایس ڈی ذلیل ہو رہے ہیں لیکن یہ سفارشی افسران اتنے ناگزیر ہیں کہ ٹریننگ اور پوسٹنگ ایک ساتھ چاہئے نوابوں کو۔ دوران ٹریننگ سارے افسران وفاقی اسٹیبشمنٹ ڈویژن کی ڈسپوزل پر ہوتے ہیں اور ان چار ماہ کی اے سی آر بھی وہی لکھتے ہیں ایسے میں ان افسران کی کسی بھی صوبائی یا وفاقی عہدے پر موجودگی غیر قانونی اقدام ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے صرف افسران کے ناز نخرے، غیر قانونی اقدامات اور ناجائز خواہشات پوری کرنی ہیں یا عوام کو بھی ڈلیور کرنا ہے۔

آرمی میں بہت اچھا سسٹم ہے کہ آپ ڈائریکٹ ٹریننگ پر نہیں چلے جاتے بلکہ ٹریننگ سے پہلے انٹرنس ایگزام لیا جاتا ہے اس امتحان میں پاس ہونے والے ہی ٹریننگ کیلئے شارٹ لسٹ ہوتے ہیں۔ آرمی، نیوی اور ائیرفورس سمیت افواج پاکستان میں پرموشن کورسز کے دوران پوسٹنگ کا تصور بھی نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واضح پالیسی دینا ہوگی کہ دوران ٹریننگ کسی کو پوسٹنگ نہیں دی جائے گی۔ پرموشن کورس میں شرکت کیلئے پوسٹنگ پر نہ ہونا لازم کیا جائے۔ کیا پرموشن کے لیے ڈیزائن کیے گئے کورسز اتنے بیکار اور ناکارہ ہیں کہ افسران پوسٹنگ انجوائے کرتے ہوئے انہیں اوور ٹائم کی وقت گزاری سمجھتے ہیں۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com

Shares: