امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے، جس کے مطابق اگر آئندہ کسی ملک نے قطر پر حملہ کیا تو اس کا جواب براہِ راست امریکا دے گا۔

ایگزیکٹو آرڈر میں واضح کیا گیا ہے کہ قطر پر کسی بھی حملے کو امریکا کے امن اور سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھا جائے گا۔ اس کے مطابق امریکا قطر کے دفاع کے لیے ہر طرح کے اقدامات کر سکتا ہے، جن میں سفارتی، اقتصادی اور فوجی کارروائی سمیت تمام قانونی اقدامات شامل ہوں گے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملہ کیا تھا۔ صیہونی فوج کا دعویٰ تھا کہ ہدف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی قیادت تھی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس حملے میں دوحہ میں موجود حماس کے مذاکراتی رہنماؤں کو دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔تل ابیب سے جاری بیان میں اسرائیلی فوج نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوحہ میں بم دھماکے کے ذریعے حماس کے سینئر رہنماؤں کو ہدف بنایا گیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اس وقت حماس کی اعلیٰ قیادت ایک اجلاس میں مصروف تھی، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ غزہ جنگ بندی کی تجویز پر غور کیا جا رہا تھا۔

دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے بعد ازاں قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی سے دوحہ حملے پر معافی مانگی۔ یہ رابطہ 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کیا گیا، جہاں نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم سے کئی منٹ فون پر گفتگو کی۔اسرائیلی وزیراعظم نے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور حملے میں ایک قطری سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ تاہم قطری ذرائع کے مطابق معافی کے باوجود دوحہ اس واقعے کو "سنگین جارحیت” قرار دیتا ہے اور اس پر عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس نئے ایگزیکٹو آرڈر سے امریکا خلیجی خطے میں براہِ راست "سلامتی ضامن” کے طور پر سامنے آ گیا ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

Shares: