قطر ہمیشہ سے ثالثی اور مذاکرات میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے۔ چاہے وہ فلسطینیوں اور اسرائیل یا دیگر گروپس کے بیچ ہو۔ موجودہ حملے نے قطر کو یہ محسوس کروایا ہو گا کہ چاہے وہ مذاکرات میں مصروف ہو اس کی سرزمین محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیل نے قطر میں ایک ہوائی حملہ کیا جس کا ہدف حماس کے رہنماء تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک امریکہ کی ثالثی کے تحت معاہدہ برائے جنگ بندی پر مذاکرات کر رہے تھے۔ امریکہ نے بھی اس حملے کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ اس حملے سے جیسا کہ خلیجی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی اس واقعہ نے اعتماد کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ڈالی ہے۔ اس کے اثرات بہت وسیع اور پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطی اور عالمی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے۔ دیگر خلیجی ریاستیں قطر کے موقف کے ساتھ کھڑی ہوں گی عوامی سطح پر غم و غصہ زیادہ ہو جائے گا۔ قطر سمیت عرب ممالک میں یہ واقعہ اسرائیل اور اس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی لہر کو مستحکم کر سکتا ہے۔ یہ واقعہ دونوں اعتراف میں خلا پیدا کر سکتا ہے۔
قطری حکام اور دیگر خلیجی ملکوں میں یہ سوال اٹھے گا کہ امریکہ کس حد تک اپنے حفاظتی وعدوں اور اتحادی تعلقات کا تحفظ کرتا ہے خاص طور پر جب اس کا علاقائی مفاد ہو۔ امریکہ کی عالمی ساکھ اور خلیجی ریاستوں میں اس کے اثر کو کم کر سکتا ہے۔ قانونی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ۔ یورپی یونین اور دیگر ممالک اسرائیل کی اس کاروائی پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ قطر اور دیگر ممالک بین الاقوامی عدالتوں اقوام متحدہ اور علاقائی فورمز میں اسرائیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی تلاش کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ عوامی مظاہرے ہوں یا قطر میں شہری سطح پر رد عمل بڑھ جائے۔ شاید ایران اور اس کے حامی گروپوں کی اس واقعہ کے بعد سرگرمیاں تیز ہو سکتی ہیں۔ یمن، لبنان، ایران، شام وغیرہ میں جاری بحران اس واقعے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل کی کاروائیاں بین الاقوامی حدود کو عبور کرتی نظر آرہی ہیں۔ اس واقعے نے خلیجی اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے ہو سکتا ہے کہ قطر بین الاقوامی سطح پر شرکاء جمع کرے اور ممکنہ طور پر قانونی سفارتی چینلز اقوام متحدہ وغیرہ سے اقدام کی کوشش کرے۔ قطر اب خلیجی شراکت داروں سعودیہ، امارات، مصر وغیرہ کے ساتھ زیادہ قریب تعاون اور حملے کے اوپر مشترکہ پوزیشن بنائے۔ وائٹ ہاؤس نے حملے پر ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔ امریکہ فورم قطر کو تسلی دینے رابطہ اور سفارتی چینل کھولنے کی کوشش کرے تاکہ خلیجی تعلقات کمزور نہ ہوں۔ ایران اس واقعہ کی سخت مذمت کر رہا ہے وہ اس واقعہ کے بعد خود کو عرب دنیا میں زیادہ قابل اعتماد مخالف اسرائیل قوت ظاہر کر رہا ہے ایران قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی یا عوامی سطح پر حمایت میں فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ خلیجی ممالک کے اس واقعے کے بعد اپنے دفاعی معاہدوں ہوائی حدود کی حفاظت اور حملوں کی روک تھام کے طریقہ کار پر دوبارہ توجہ دیں۔ ممکنہ طور پر امریکہ کے ساتھ مزید واضح اعتماد کی شرائط مانگ سکتے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ کسی بڑے قدم کا امکان کمزور کر سکتا ہے امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ مزید ایسے اقدامات سے گریز کرے۔ خلیجی ممالک کی تسلی کے لیے سفارتی مصالحت کی کوشش کرے گا تا ہم خطے میں سیاسی محاذ بندی سخت ہو سکتی ہے۔ کمزور ممالک ثالثی کے لیے متبادل ضمانتیں مانگیں گے مثلا بین الاقوامی یا قانونی گارنٹی۔ ABRAHAM STYLE پیش رفتوں کو دھچکا اور سعودی خلیجی جانب سے اسرائیل کے ساتھ بڑے سیاسی قدم اٹھانے کا امکان کم ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن کو اپنے عسکری سیاسی اتحاد اور خطے کے مفادات کے درمیان مزید توازن قائم رکھنا ہوگا اس کا اثر طویل مدتی شراکتوں اور اعتماد سازی پر پڑے گا۔ بین الاقوامی خرابی کو کم کرنے کے لیے اسرائیل کو زیادہ احتیاطی رویہ اپنانا چاہیے شفافیت اور تلافی کے ذریعے سفارتی قیمت ادا کی جائے ورنہ امن کے راستے متاثر رہیں گے۔ نیتن یاہو کو ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔








