وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے اپیل کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے لازمی پلائیں، قطرے پلانے سے انکار کرنے پر نا صرف وہ بچے خطرے میں رہیں گے بلکہ ارد گرد کے بچوں کی زندگیاں بھی خطرے میں رہیں گی کیونکہ پولیو کا کوئی علاج نہیں۔
باغی ٹی وی کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپریل کی پولیو مہم سے قبل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (ای او سی) سندھ کے دورے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال کو صوبے میں پولیو کی موجودہ صورتحال اور 21 اپریل 2025 سے کراچی بھر میں شروع ہونے والی پولیو ویکسینیشن مہم کی تیاریوں پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر صوبائی کورڈینیٹر ارشاد علی سوڈھر، ٹیکنیکل فوکل پرسن ای او سی ڈاکٹر احمد علی شیخ، یونیسیف پروونشل ٹیم لیڈ ڈاکٹر عظیم خواجہ وہاں موجود تھے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس تاحال موجود ہے اور اس ماہ ان دونوں ممالک میں ہمہ وقت پولیو مہم کا آغاز اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ حالیہ ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر صحت نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 85,000 خاندانوں نے گزشتہ مہمات میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا تھا، جن میں سے 34,000 صرف کراچی اور 27,000 ضلع شرقی سے تھے۔ اسی سلسلے میں آج اتوار کے دن خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ نیشنل کوآرڈینیٹر، صوبائی کوآرڈینیٹر، پانچ اراکین صوبائی اسمبلی اور دو اراکین قومی اسمبلی ضلع شرقی سے شریک ہوئے کیونکہ یہ چیلنج اتنا بڑا ہے کہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیر صحت نے انفراسٹرکچر کے مسائل پر بھی بات کی اور مقامی سیوریج اور صفائی کے نظام کی بہتری کے لیے بلدیاتی اداروں کو گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آخر میں انہوں نے فرنٹ لائن ورکرز کی محنت کو سراہا اور بہتر تنخواہوں اور سہولیات کے لیے کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں گے تاکہ وہ اس قومی مہم میں ہمارا ساتھ دیں۔ پولیو کا خاتمہ کسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ویکسین کے خلاف افواہوں پر کان نہ دھریں، اور بتایا کہ پولیو ویکسین شریک تنظیمیں خریدتی ہیں اور اگر کوئی خوراک ایکسپائر ہو جائے تو اسے فوری طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔یہ وہی ویکسین ہے جو بڑے نجی اسپتالوں میں دی جاتی ہے۔ یہ محفوظ، مؤثر اور عالمی سطح پر منظور شدہ ہے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کراچی کے تمام اضلاع سے لیے گئے ماحولیاتی نمونے پولیو وائرس کے لیے مثبت آئے ہیں۔ اگرچہ وائرس کی منتقلی جاری ہے، لیکن کیسز کی تعداد ویکسینیشن کی کوششوں کی کامیابی کی وجہ سے کم ہے۔ فرنٹ لائن ورکرز وہی معیاری ویکسین دے رہے ہیں جو نجی اسپتالوں میں دستیاب ہے جبکہ پولیو کو دیگر صحت خدمات جیسے غذائیت اور ہیپاٹائٹس کی روک تھام سے جوڑنے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔
اسرائیلی محاصرہ، غزہ کے 60 ہزار بچے فاقہ کشی کا شکار، یو این کا تشویش کا اظہار
جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر پروفیسر خورشید احمد کا انتقال