پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

آپ نے شاعری کالج کے زمانہ سے ہی شروع کی
0
153

پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

رشید قیصرانی

اردو کے ممتاز شاعر و ادیب رشید قیصرانی 13 دسمبر 1930 میں اپنے والد سردار شیر بہادر خان کی بسائی ہوئی بستی شیر گڑھ میں پیدا ہوئے رشید قیصرانی کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے مشہور بلوچ قبیلے قیصرانی کے سردار گھرانے سے تھا۔ آپ نے شاعری کالج کے زمانہ سے ہی شروع کی، آپ نہ صرف اردو غزل میں ملک کے صف اوّل کے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ آپ کا نام اردو ادب کا بھی ایک مقبول نام ہے، مشہور نقّاد ڈاکٹر عابد حسین نے 1955ء میں اردو ادب کی تاریخ لکھتے ہوئے رشید قیصرانی صاحب کو پاکستان کی غزل کی آواز قراردیا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر اختر ارینوی نے، ڈاکٹر انور سدید نے تاریخ ادب اردو میں خاص طور پر ان کا نام مرقوم کیا اور ان کی خدماتِ ادب کو سراہا ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر نامور ادیبوں اور شاعروں نے ان کے فن اور شخصیت پر مضامین لکھے ہیں، جن کوخالد اقبال یاسر اور جلیل حیدر لاشاری نے یکجا کر کے ’’رشید قیصرانی فن اور شخصیت‘‘کے نام سے ایک کتاب کی صورت میں شائع کروایا۔

رشید قیصرانی کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے: ’فصیل لب‘، ’صدیوں کا سفر تھا‘، ’نین جزیرے‘، ’سجدے‘ اور ’کنار زمین تک‘۔ پھر ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتحال پر آپ کی کتاب Thought of the dayبھی شائع ہوئی جسے بڑی پذیرائی ملی۔ آپ کے اخباری کالم اور مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’یہ کیا ہے، یہ کیوں ہے‘‘ کے نام سے بھی شائع شدہ ہے۔

ان کا انتقال 21 جون 2010 میں ملتان میں ہوا وہ عرصے سےعارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص

میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص

سوچوں بھی اب اسے تو تخیل کے پر جلیں
مجھ سے جدا ہوا تو خدا ہو گیا وہ شخص

سب اشک پی گیا مرے اندر کا آدمی
میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ شخص

میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً
سمٹا سمٹ کے رنگ حنا ہو گیا وہ شخص

یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص

پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

Leave a reply