اسرائیلی فوج کی اعلیٰ قانونی افسر (چیف ایڈووکیٹ جنرل) میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعہ کے روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا استعفیٰ اس مجرمانہ تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے جو اس ویڈیو کے لیک ہونے پر کی جا رہی تھی جس میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی قیدی کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے اپنے استعفے میں لکھا کہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کے افشا ہونے کی منظوری دی تھی، جس کے باعث اب وہ مزید اس عہدے پر کام نہیں کر سکتیں۔ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اسرائیلی فوج نے پانچ فوجیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کی، جس کے بعد ملک میں ایک بڑی ہلچل پیدا ہو گئی۔ دائیں بازو کے سیاستدانوں اور قوم پرست گروہوں نے اس کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ کچھ مظاہرین نے اس واقعے کے بعد دو فوجی اڈوں پر دھاوا بھی بولا جب تحقیقاتی ٹیم نے فوجیوں کو تفتیش کے لیے طلب کیا۔

لیک ہونے والی ویڈیو اسرائیل کے صدی تیمن (Sde Teiman) حراستی مرکز کی ہے جہاں ان فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جو یا تو 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے میں ملوث تھے یا بعد ازاں غزہ کی لڑائی میں گرفتار کیے گئے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند فوجی ایک فلسطینی قیدی کو ایک طرف لے جا کر اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، ایک فوجی کتے کو قیدی پر چھوڑا جاتا ہے جبکہ باقی اپنی ڈھالوں سے منظر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے رواں ہفتے بتایا کہ ویڈیو کے لیک ہونے پر جاری مجرمانہ تحقیقات کے دوران میجر جنرل یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا تھا۔یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ انہوں نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا تاکہ فوج کے قانونی شعبے کو ’’جھوٹے پروپیگنڈے‘‘ سے بچایا جا سکے، کیونکہ جنگ کے دوران فوج کے قانونی ادارے کو جان بوجھ کر بدنام کیا جا رہا تھا۔انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا "صدی تیمن کے قیدی یقیناً بدترین دہشت گرد ہیں، مگر اس حقیقت سے یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوتی کہ کسی بھی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب یہ بنیادی اصول سب کو قائل نہیں کرتا۔”

وزیرِ دفاع کاتز نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "جو کوئی اسرائیلی فوجیوں کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتا ہے وہ اسرائیلی فوج کی وردی پہننے کا اہل نہیں۔”دوسری جانب اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتمار بن گویر نے ان کے استعفے کو خوش آئند قرار دیا اور فوجی قانونی افسران کے خلاف مزید تحقیقات کا مطالبہ کیا۔بن گویر نے اپنی ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آ رہے تھے، جو بندھے ہوئے حالت میں فرش پر لیٹے تھے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ وہ حملہ آور ہیں جو 7 اکتوبر کے قاتلانہ حملوں میں شامل تھے، اور انہیں سزائے موت ملنی چاہیے۔”

غزہ جنگ بندی کے تحت رواں ماہ تقریباً 1,700 فلسطینی قیدی رہا کیے گئے، بدلے میں 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کیا گیا۔ کچھ رہائی پانے والے اسرائیلی قیدیوں نے دعویٰ کیا کہ حماس کے جنگجوؤں نے ان پر بن گویر کے بیانات کے بدلے تشدد کیا۔بن گویر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سب حماس کے مفاد میں پھیلائی گئی کہانیاں ہیں۔”

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدی تیمن کیمپ اور دیگر اسرائیلی حراستی مراکز میں فلسطینی قیدیوں پر بدترین تشدد، بھوک اور غیر انسانی رویے کی رپورٹس جاری کی ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی "درجنوں تحقیقات” جاری ہیں، تاہم وہ اسے "نظامی مسئلہ” تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔

Shares: