امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران متعدد مواقع پر یہ دعوی کیا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروانے یا جنگ بندی میں کردار ادا کیا ہے۔ ایسے بیانات سے وقتی طور پر عالمی توجہ ضرور حاصل ہو جاتی ہے مگر خطے کے دیرینہ اور اصل مسلے یعنی کشمیر پر امریکی پالیسی ہمیشہ خاموش اور مبہم رہی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تر تناؤ، سرحدی جھڑپوں اور بداعتمادی کی جڑ مسلہ کشمیر ہے۔ جب تک اس تنازع کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ کشمیر کے عوام کئی دہائیوں سے اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم شدہ ہے۔ امریکہ اگر واقعی خطے میں امن کا خواہاں ہے تو اسے محض جنگ بندی کروانے یا کشیدگی کم کروانے کے بیانات سے آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے عملی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

طاقتور ممالک کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ وقتی بحرانوں کو سنبھالیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی پالیسی اختیار کریں تاکہ تنازعات کی جڑیں ختم ہو سکیں۔ پاکستان ہمیشہ مذاکرات اور امن کی بات کرتا رہا ہے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی سرد مہری کے باعث یہ مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔ نتیجتا لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے کشیدگی بڑھ جاتی ہے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور خطے کا امن داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ امن صرف جنگ بندی سے نہیں بلکہ انصاف سے آتا ہے اور انصاف تب ہی ممکن ہے جب کشمیر کے عوام کو وہ حق دیا جائے جس کا وعدہ ان سے برسوں پہلے کیا گیا تھا۔

Shares: