بتی چلی گئی،بتی آگئی،توہاڈا بل کتنا آیا،گیس آرہی یا نہیں،یہ ہیں قوم کے دکھ۔ تجزیہ : شہزاد قریشی
دنیا مریخ پر گھر بنانے میں مصروف،ہمیں خوشامدی لے ڈوبے
خوشامد کے جراثیم سیاست کا حصہ،سائیکل پر آیا سیاسی کار بنگلے کا مالک بن گیا
ذرا نہیں پورا سوچئے احکامات خداوندی اور سیرت النبیﷺ پر کتنا عمل ہورہا
ملکی قرض آسمان پر پہنچ جائے دینا قوم نے ہی ہے،لینے والے ذمہ دار نہیں
تجزیہ،شہزاد قریشی
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم وہ بدنصیب قوم ہیں آج تک گیس چلی گئی ،گیس آ گئی ، بجلی چلی گئی ،بجلی آگئی،ہر سو انتشار ہی انتشار ، ذاتی مفادات ،اقربا پروری ، علم اور عمل سے دور،علم اور عمل والوں کی قدر نہیں، خوشامد ایک ایسا ہنر ہے جس سے سب کو کاٹا جا سکتا ہے جو تیز دھار تلواروں سے کٹ سکے،انہیں خوشا مد اور قصیدہ خوانی نے بام عروج پر پہنچا دیا زمانہ ہی خوشامد خوروں کا ہے؟اگرسیاست کی بات کی جائے تو غربت سیاسی گلیاروں میں نہیں ہوتی ، بے روزگاری ،سیاسی گلیاروں میں نہیں دیکھی جا سکتی ، نہ کبھی نظر آئی ، ریاست کے سارے وسائل اس سیاست کی دسترس میں ہوتے ہیں، قرضے جتنے بھی بڑھ جائیں وہ عوام نے اُتارنے ہیں، سیاسی گلیاروں میں دیکھاجائے تو سیاستدانوں کی اکثریت اپنے آپ کو ملائکہ کرام کہلوانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتی ہے، دنیا بھرمیں جمہوریت ،جمہور کی خدمت ہے ریاستی مفادات میں ہماری جمہوریت ذاتی مفادات،اقربا پروری ،جھوٹ ، فریب ،دھوکے ، خوشامد پر قائم ہے،مفاد پرستی کی سیاست نے اتنے پَر پھیلائے کہ فوج محفوظ نہ عدلیہ،ان حالات میں سیاسی عدم استحکام نہ ہو تو کیا ہو، ایک طرف آئین کھڑا ہے وہ اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے،معیشت کا حال تو مت پوچھیئے وہ اس وقت کہاں کھڑی ہے خود ساختہ خوشحالی کے قصے اور کہانیاں سنانے والے سنا رہے ہیں،المیہ یہ ہے کہ عوام ان مفادات پرست سیاستدانوں کو مسیحا اور ہیرو مانتی ہے، کل تک 1980 ء میں جن کے پاس موٹر سائیکل اور سائیکل تھی آج اُن کے پوش علاقوں میں محل نما گھر ، پلازے ، مارکیٹیں ، کروڑوں روپے کی گاڑیاں کہاں سے آگئیں ؟سیاسی جماعتوں میں خود ساختہ ا یسے رہنمائوں کو میں جانتا ہوں جن کو اپنا راستہ معلوم نہیں وہ قوم یا اپنے حلقے کےعوام کو کیسے راستہ دکھائیں گے یا رہنمائی کریں گے، کہیں فکر اسلام کی باتیں ہوتی ہیں،لیکن اسلامی مملکت میں احکامات خدا وندی سیرت النبی ؐ پر کتنا عمل کیا جاتا ہے ؟ عدل وانصاف کی بات کی جائے تو آج بھی جسٹس رانا بھگوان داس ،جسٹس کارنولیئس،جسٹس دراب پٹیل کا نام سنہری الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور عوام کو رائٹ مین فار جاب حقیقت پسندی اور اخلاص کے پیمانوں پر شخصیات کو تولہ جائے اور شعبہ ہائے زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ قوم کی تعمیر اور ترقی کا سفر جاری ہو سکے۔