لیڈر لوگوں کو شعور دیتے ہیں۔ نئی نسل کو انقلاب کے لیے تیار کرتے ہیں۔ وہ تاریخ کے اوراق میں نئی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ اور دلوں میں ہمیشہ کے لیے بس جاتے ہیں۔ انہیں کسی نام نہاد طاقت کی آشیرباد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی ہی ایک متاثر کن شخصیت، دور اندیش لیڈر، مدبر سیاست دان اور فہم و فراست سے آراستہ قانون دان ہمارے محسن، ہمارے قائد، محمد علیؒ جناح ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے۔ کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال سے زائد عرصہ یہاں حکمرانی کی تھی۔ پھر یہاں نوآبادیاتی نظام قائم ہوا۔ اور انگریزوں کے دور سو سالہ دورِ حکومت کا آغاز ہو گیا۔ چونکہ مسلمان اپنے وطن پہ اس بیرونی تسلط کے خلاف مزاحمت کا موجب رہے تھے۔ اس لئیے اس دو سو سالہ نو آبادیاتی تسلط میں ایک طرف انگریزوں کے زیرِ عتاب ر ہے۔ تو دوسری طرف ہندوؤں کے متعصبانہ رویہ کا بھی شکار رہے۔ مسلمانوں کے اس محکومی کے دور میں ایک چراغ روشن ہوا۔ جن کا نام محمد علیؒ جناح تھا۔ جو آگے چل کے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے نجات دہندہ و رہبر ثابت ہوئے۔
قائدِ اعظم محمد علیؒ جناح 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز 1982ء میں کیا۔ اور 1893ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد قانون کی اعلی تعلیم کے حصول کے لئیے لندن روانہ ہو گئے۔ آپ بچپن سے ہی منفرد اور تعمیری سوچ کے حامل تھے ۔ معروف مصنف اور سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو نے 1954ء میں قائدِ اعظمؒ کی سوانحِ حیات Jinnah: Creator” of Pakistan” میں ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ کہ ‘ قائدِاعظمؒ نے کھارادر میں اپنے محلے کے بچوں کو کنچے کھیلتے دیکھا تو ان سے کہا کہ وہ کنچے نہ کھیلیں، اس سے ان کے ہاتھ اور کپڑے گندے ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے ان بچوں کو کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا اور کرکٹ سکھائی بھی۔ پھر جب قائدِاعظمؒ برطانیہ جانے لگے تو انہوں نے اپنی کرکٹ کِٹ انہی بچوں کے حوالے کردی۔

قائدِ اعظمؒ ایک سچے مسلمان اور محبِ رسول اللہﷺ تھے ۔ آپ نے لندن کی "لنکنز اِن” یونی ورسٹی میں اس لئیے داخلہ لینے کو ترجیح دی ۔ کہ اس کے صدر دروازے کے اوپر دنیا کو قوانین سے متاثر کرنے والے عظیم رہنماؤں میں سب سے اوپر جناب رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا نامؐ مبارک درج تھا۔ آپ نے 19 سال کی عمر میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اور 1896ء میں وطن واپس آ گئے ۔ قائدؒ نے وطن واپسی پہ لندن میں اپنے ساتھی وکلاء سے کہا۔ "میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان واپس جا رہا ہوں”۔

وطن واپسی پہ قائدِ اعظمؒ نے برصغیر کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کے لئیے عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ اور 1906ء میں نیشنل کانگریس میں شمولیت اخیتار کی۔ آپ کو ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر کا خطاب دیا گیا۔ مگر کانگریس کا عملی طور پہ حصہ بننے کے بعد قائدِ اعظمؒ پہ ہندو متعصبانہ اور مفاد پرست رویہ جات نے آشکارا کر دیا ۔ کہ اس کا مسلمانوں کی بہتری سے کوئی واسطہ نہیں ۔ 1913ء میں آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اخیتار کی ۔ اور مسلمانوں کے حقوق اور انکی جُداگانہ حیثیت کی بقاء کے لئیے سیاسی و آئینی جہدوجہد کا باقائدہ آغاز کر دیا ۔ جو آپ نے تادمِ مرگ جاری رکھا۔

برصغیر کے ہندو سیاست دانوں اور قائد اعظمؒ کی سوچ و فکر کے زاویوں میں بے حد فرق تھا۔ ایک دفعہ گاندھی نے ان سے کہا:۔”آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے”۔ جناحؒ نے برجستہ جواب دیا:۔” جی اور آپ نے ہندؤوں پر ہپناٹزم ”۔

قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے اپنی دور اندیش سوچ اور فہم و فراست کے سبب یہ جان لیا تھا۔ کہ مسلمانوں کی بہتری و بقاء صرف الگ وطن کے حصول میں ہے۔ آپ نے اپنی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں اور مدبرانہ حکمت ء عملی سے مسلمانوں میں حیران کن عزم، اتحاد اور انقلابی سوچ و افکار پھونک دیئے تھے۔ مسلمانوں کی بہترین دانشورانہ انداز میں رہبری پہ قائد کو قائدِ اعظمؒ کا خطاب پہلی بار 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پٹنہ میں اجلاس میں مولانا مظہر الدین کی طرف سے ملا ۔ جو پورے برصغیر میں پھیل گیا۔ سن 1941ء میں ایک مرتبہ قائدِ اعظمؒ مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کر کے واپس جارہے تھے۔ کہ راستے میں ایک قصبہ سے گذر ہوا۔ جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا،اسے دیکھ کر قائدِ اعظمؒ نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کر پوچھا ”تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟“لڑکا گھبرا گیا۔قائدؒ نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھر وہی سوال پوچھا۔ لڑکا بولا ۔ ”پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں،ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان۔“قائدِ اعظمؒ نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے۔۔ لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔“یہ بات صحافی نے نوٹ کرلی۔ اور اگلے روز تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہو گئی۔

امریکی مورخ و مصنف سٹینلے وولپرٹ 1984ء میں شائع ہونے والے اپنی مشہور کتاب "Jinnah of Pakistan” میں لکھتے ہیں ۔
“تاریخ کا رخ بدلنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں، دنیا کا نقشہ بدلنے والے اس سے بھی کم، اور ایک نئی قوم کی بنیاد رکھنے والے تو نہ ہونے کے برابر۔ محمد علیؒ جناح نے یہ تینوں کام انجام دیئے۔”

بابائےؒ قوم نے ناصرف برصغیر کے مسلمانوں کو ایک متحد قوم میں ڈھالا، بلکہ اس قوم کی آنے والی نسلوں کے لئیے اپنے غیر متزلزل عزم اور مسلسل جدو جہد وجہد سے ایک آزاد وطن پاکستان بھی حاصل کیا۔ پاسبانِؒ ملت نے 1947ء میں دستور ساز اسمبلی میں خطبہِ صدارت میں ایک واضح لائحہء عمل دیتے ہوئے فرمایا؛” اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں ۔ تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی ہو گی۔ ”

زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتیں۔ 25 دسمبر، یومِ قائد کے موقع پر، قوم محسنِ ملت قائداعظم محمد علیؒ جناح کو سلام پیش کرتی ہے۔
؂
ملت کا پاسباں ہے محمد علیؒ جناح
ملت ہے جسم، جان ہے محمد علیؒ جناح

Shares: