السلام علیکم ، یاسمین صاحبہ ، کیسی ہیں ؟
الحمدللہ ، بالکل ٹھیک
کچھ اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیے کن اداروں سے تعلیم حاصل کی ؟
کانونٹ جیسز اینڈ میری اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فائن آرٹس سٹڈیز میں تعلیم مکمل کی
پہلی پینٹنگ کب بنائی ؟
پہلی پینٹنگ دس سال کی عمر میں بنائی جو والد صاحب نے دیکھی اور اینا مولکا کو دکھائی ( اینا مولکا احمد مشہور مصورہ اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فائن آرٹس کی بانی)
اور پھر مصوری میں میں اینا مولکا صاحبہ کی پرائیویٹ سٹوڈنٹ رہی
کانونٹ میں تعلیم اور فائن آرٹس میں دلچسپی کے باوجود اردو شاعری کی طرف کیسے ا ئیں؟
کانونٹ میں پڑھنے کی وجہ سے میری اردو زرا کمزور تھی وہ میں نے اپنی والدہ صفیہ بیگم صاحبہ سے سیکھی وہ لکھتی تھیں شاعری بھی کرتی تھیں میرے ننھیال کا ماحول بہت علمی و ادبی تھا میرے نانا ماموں سب علامہ اقبال کی شاعری کو بہت پسند کرتے تھے اور گھر میں مولانا ظفر علی خان کا بھی آ نا جانا تھا شاعری میں علامہ اقبال سے متاثر ہوئی .

شاعری اور مصوری میں کیا قدر مشترک ہے ؟
میرے خیال میں شاعر اپنے تخیل میں الفاظ سے رنگ بھر کر کے غزل و نظم کہتا ہے اور مصور اپنے تخیل کو رنگوں کی صورت کینوس پر اتارتا ہے دونوں اپنے اپنے تخیل میں رنگ بھرتے ہیں
بہت خوبصورت بات ہے یاسمین صاحبہ ، یہ بتائیے جب آ پ نے قائد اعظم کی پینٹنگ بنای تو تخیل میں وہ کیسے تھے ؟
بالکل ویسے تھے جیسے میں نے انہیں زندہ و سلامت دیکھا تھا انہیں ملی تھی اور ان کا دست شفقت آ ج بھی میں اپنے سر پر محسوس کرتی ہوں
yasmeen
یاسمین صاحبہ آ پ کا پاکستان کے اہم خانوادہ سے تعلق ہے آ پ کے والد محترم ڈاکٹر ریاض علی شاہ قائد اعظم کے ذاتی معالج تھے اور آ خری وقت میں ان کے ساتھ تھے اس حوالے سے تفصیل سے بتائیے
جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی تو ان دنوں میری عمر سات آ ٹھ سال تھی اتنا بچہ سمجھ دار ہوتا ہے اسے سب یاد ہوتا ہے میں نے اپنے گھر میں قائد اعظم اور پاکستان کا بہت نام سنا تھا میں سب بچوں کو جمع کرلیتی تھی اور جلوس نکالتی تھی ہلیپرز کے بچے بھی آ جاتے تھے اور میری قیادت میں سب بچے مل کر نعرے لگاتے تھے
لے کے رہیں گے پاکستان
دینا پڑے گا پاکستان
پاکستان ہمارا ہے
جان سے بڑھ کر پیارا ہے
بہت جوش وخروش کا عالم تھا میرے تصور میں پاکستان ایسا تھا کہ جہاں پھول کھلے ہونگے اور بہت خوبصورت ہوگا جہاں مسلمان خوش رہیں گے اور قائد اعظم مجھے ہمالیہ سے بھی بلند لگتے تھے اور واقعی وہ بہت بڑے عظیم لیڈر تھے آ ج تک کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آ یا
اور پھر ایک دن وہ بھی آ یا جب ابا نے سب بچوں بڑوں کو ڈراینگ روم میں بلایا سب وہاں جمع تھے اور خاموش تھے ابا نے ریڈیو آ ن کردیا کچھ دیر بعد ایک آ واز گونجی پہ آ ل انڈیا ریڈیو ہے کچھ دیر بعد اہم اعلان کیا جاے گا
اور پھر بارہ بج کر سات منٹ پر مصطفی ہمدانی نے اعلان کیا ،، یہ ریڈیو پاکستان ہے ،،
یہ آ واز اب تک میرے کانوں سے نکلتی نہیں ، سب کی آ نکھوں میں خوشی کے آ نسو تھے ، قائد اعظم جب بمبئی میں تھے تو ڈاکٹر پیٹل کے زیر علاج تھے وہ ایک مہلک بیماری ٹی بی میں مبتلا تھے ڈاکٹر پیٹل نے میرے والد صاحب ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے ھیینڈ اوور کردیا کیونکہ والد صاحب اس وقت برصغیر کے نامور ٹی بی سپشلسٹ تھے اور اس سلسلے میں ایوارڈ حاصل کر چکے تھے امریکہ سے انہوں نے اس بیماری پر ریسرچ کی تھی
اب وہ قائد اعظم کے ذاتی معالج تھے قائد اعظم نے میرے والد سے کہا تھا کہ ڈاکٹر شاہ میری بیماری کو سیکرٹ رکھنا ہے اور میرے والد صاحب نے اسے بہت راز میں رکھا قائد اعظم کی حالت ایسی تھی کہ اب وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے ان کی زندگی کی جتنی مدت ڈاکٹرز نے بتا دی تھی والد صاحب کے علاج کے بعد اس مدت میں کچھ اضافہ ہوا اور وہ مزید اٹھارہ ماہ زندہ رہے
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر جناح کی بیماری کا علم ہو جاتا تو پاکستان نہ بنتا
انگریز اور ہندو یہی چاہتے تھے میرے والد صاحب نے بہت رازداری سے علاج کیا اور کسی کو ان کی حالت کی ہوا نہیں لگنے دی یہ میرے والد صاحب کی پاکستان کے لیے خدمت تھی لیکن انہوں نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا کسی بڑائی کا اظہار نہیں کیا،جب قائد اعظم کراچی آ گئے اور یہیں رہنا چاہتے تھے لیکن ان کی حالت کے پیش نظر والد صاحب اور دوسرے ڈاکٹرز نے آ ب وہوا کی تبدیلی کے لیے انہیں کوئیٹہ زیارت لے جانے کا فیصلہ کیا،کوئٹہ منتقل ہونے کے بعد ان کا علاج جاری تھا ڈاکٹرز کو بہتری کی امید تھی محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں ، اب والد صاحب قائد کے علاج کے سلسلے میں لاہور سے کوئٹہ آ تے جاتے رہتے تھے چونکہ قائد ایسے انسان تھے جو دوسروں کا سوچتے تھے کسی کی تکلیف انہیں گوارا نہیں تھی انہوں نے والد صاحب سے کہا ڈاکٹر شاہ آ پ کی فیملی لاہور میں ہے آ پکو کوئیٹہ آ نا پڑتا ہے آ پ فیملی کو بھی یہاں بلا لیں اس طرح والد صاحب نے ہمیں کوئیٹہ بلوا لیا ہم وہاں چلتان ہوٹل میں رہے ان دنوں میری والدہ کی فاطمہ جناح سے بہت دوستی ہو گئی ہم بچوں کو جہاں قائد اعظم تھے زیارت ریزیڈنسی میں نہیں لے جایا جاتا تھا ایک دن میں اور میرا بھائی ضد کر کے والد صاحب کے ساتھ چلے گئے اس دن قائد اعظم کو وہیل چیئر پر لایا گیا ان کے ایک طرف برٹش نرس اور دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح تھیں انہیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ وہ کتنے کمزور ہو گئے تھے جب میں پہلے ان سے ملی تھی تو وہ بہت شاندار نظر آ ئے تھے اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تھا،جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں کراچی واپس لایا گیا وہ اپنے جہاز میں جو پہلے ماؤنٹ بیٹن کا تھا ڈکوٹا اس میں کراچی آ ئے اور ایئر پورٹ سے ایمبولینس روانہ ہوئی جس میں میرے والد صاحب محترمہ فاطمہ جناح اور دوسرے ڈاکٹرز تھے اور اس سے تھوڑے فاصلے پر ہماری گاڑی تھی جس میں ہماری فیملی تھی کچھ دور جانے کے بعد ایمبولینس رک گئی اس کا پچھلا دروازہ کھلا برٹش نرس باہر آ ئیں فاطمہ جناح بھی اتریں ہم پریشان ہوے پھر پتہ چلا کہ ٹکنیکل فالٹ ہے ابھی دوسری ایمبولینس آ جائے گی ، یہاں میں ایک بات بتانا چاہتی ہوں کہ قائد اعظم کا ایمبولینس میں انتقال نہیں ہوا اکثر لوگوں نے کہا اور یہ لکھا ہے لیکن یہ غلط ہے میں نے اپنی آ نکھوں سے ایمبولینس میں قائد اعظم کو دیکھا وہ بے چین تھے ہاتھ ہلا رہے تھے محترمہ سے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھلا تھا قائد اسٹریچر پر تھے اور پیچھے ہماری گاڑی تھی میں رونے لگی اور والدہ نے مجھے تسلی دی کہ قائد کو کچھ نہیں ہوگا ، پھر دوسری ایمبولینس آ گئی اور ہم وہاں سے روانہ ہوئے.کراچی پہنچنے کے تھوڑے دنوں بعد ایک رات محترمہ فاطمہ جناح کا والد صاحب کو فون آ یا کہ کہ قائد کی طبیعت بہت خراب ہے آ پ آ جائیں.میرے والد صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ جب میں وہاں پہنچا تو محترمہ فاطمہ جناح کی گود میں قائد کا سر تھا ان کا آ خری وقت تھا ان کی آ واز مدھم ہوگئی تھی لیکن موت سے پہلے شاید ایک سنھبالا آ یا اور ان کے آ خری الفاظ تھے اللہ اور پاکستان..

یاسمین صاحبہ اپنی بنائی پیٹنگز کے ساتھ
یاسمین صاحبہ اپنی بنائی پیٹنگز کے ساتھ

یاسمین صاحبہ ، آ پ خؤش قسمت ہیں آ پ نے عظیم لیڈر کو نہ صرف دیکھا بلکہ آ پ کا بچپن ان کے ساتھ گزرا کچھ محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں بتائیے ؟
فاطمہ جناح بہت گریس فل ، بہت اچھی شخصیت کی مالک تھیں ہمیشہ سفید یا گرے لباس میں ملبوس ہوتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں لاہور میں ہمارا فارم ہاؤس تھا دلکشا گارڈن وہ جب بھی لاہور آ تیں وہیں ٹھہرتیں اور میں سب سے پہلے جاکر ان سے ہاتھ ملاتی میرا دل چاہتا تھا میں بھی ان جیسی بنوں ایک دن میرا دل چاھا میں ان کے سفید خوبصورت لباس کو ہاتھ لگا کر دیکھوں میں نے ان کی چادر کو چھوا تو انہیں مجھ پر پیار آ یا انہوں نے مجھے پیار کیا اور کہا تم بڑی ہو جاؤ گی تو اپنے ملک کے لیے کام کرنا ، اور مجھے امید ہے تم ضرور کرو گی

ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور فاطمہ جناح
یاسمین صاحبہ اب اپنے سوشل ورک کے بارے میں بتائیے اس سلسلے میں آ پ کی بہت خدمات ہیں ؟
میں امریکہ میں پندرہ سال رہی ہوں وہاں سے صرف اپنے وطن کی خدمت کے لیے واپس آ ئی ہوں اس کا سہرا شمسی صاحب کو جاتا ہے وہ میرے استاد بھی ہیں ہم نے مل کر ،، آ رٹ اینڈ لائف ،، ا کے نام سے ادارہ بنایا جس کے تحت غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور گھر گھر جاکر مستحق لوگوں کی مدد کی جاتی ہے ، غریب جھگیوں والوں کی مدد کی جاتی ہے ،، آ رٹ اینڈ لائف ،، کے پریذیڈنٹ زاہد شمسی صاحب اور میں وائس پریزیڈنٹ ہوں
یاسمین صاحبہ نئی نسل کے لیے کوئی پیغام ؟
میں ساری دنیا میں گھومی ہوں لیکن میں نے اپنی یوتھ کو سب سے اچھا پایا یہ سب کرسکتے ہیں بس انہیں قائد اعظم کے سنہری اصولوں ، اتحاد ، ایمان ، تنظیم کو اپنانا ہوگا
میرا خیال ہے اب میں ہی زندہ ہوں جس نے پاکستان بنتے دیکھا ان دنوں کا جوش و جذبہ محسوس کیا اور قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی عظیم شخصیات کو قریب سے دیکھا والد صاحب قائد اعظم کے صرف پرسنل ڈاکٹر ہی نہیں دوست بھی تھے اور انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے دنوں میں ان کی حمایت میں ورک بھی کیا تھا پھر میرے نانا اور ماموں علامہ اقبال کی زندگی میں ان سے مل چکے تھے اور گھر میں علامہ اقبال کی شاعری کا بہت ذکر ہوتا تھا سب انہیں بہت پسند کرتے تھے پھر پاکستان اور قائد اعظم کا بہت ذکر ہوتا تھا اس کے علاؤہ مولانا ظفر علی میرے والد کے پیشنٹ بھی تھے پڑوس میں رہتے تھے ان کے گھر بھی آ نا جانا تھا ان کی شاعری اس وقت میری سمجھ میں نہیں آ تی تھی ، بس ان عظیم شخصیات کے ساتھ گزرا میرا بچپن بہت حسین تھا اور میں انہی یادوں کے ساتھ زندہ ہوں اور نئی نسل سے توقع ہے کہ قیام پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے
اپنے شوہر محترم اور بچوں کے بارے میں بتائیے ؟
میرے شوہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید سجاد بخاری صاحب ستارہ امتیاز حاصل کر چکے ہیں بیٹا ڈاکٹر احمد جمال بخاری بیسٹ ڈاکٹر کے متعدد ایوارڈز حاصل کر چکا ہے دو بیٹیاں ہیں بڑی عائشہ بخاری اور چھوٹی شہرزادے بخآری
یاسمین بخاری صاحبہ آ پ سے مل کر بہت اچھا لگا میں خوش قسمت ہوں کہ آ پ جیسی شخصیت سے ملی اور بات چیت کی
مجھے بھی اچھا لگا
یہ میرے لیے اعزاز ہے ، بہت شکریہ

Shares: